منتخب تحریریں

حکمرانوں سے کشادہ دلی کی توقع؟

Share

تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرلینا چاہیے کہ اس جماعت کے حامیوں نے پراپیگنڈا کے محاذ پر متاثر کن اجارہ قائم کرلیا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر نہایت مہارت سے وہ کوئی ایسا نکتہ اٹھاتے ہیں جسے میڈیا کے لئے نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں۔ پیشہ وارانہ یا ”دیگر“ وجوہات کی بنیاد پر پاکستان کا روایتی میڈیا اگر اس نکتے کو نظرانداز کردے تب بھی عالمی میڈیا اس کے ذکر کومجبور ہوجاتا ہے۔اس حکمت عملی کی بدولت امریکہ اور یورپ کے ممالک میں یہ تصور مضبوط سے مضبوط تر ہورہا ہے کہ عمران حکومت کو پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے بعد ہمارے ہاں جو حکمرانی بندوبست قائم ہوا ہے وہ اپنی سرشت میں ”فسطائی“ ہے۔ یہ عمران خان کے حامیوں کو سانس لینے کی مہلت بھی نہیں دے رہا۔ ان میں سے ”ہزاروں“ بے بنیاد الزامات کے تحت جیلوں میں پھینک دئے گئے ہیں۔”انصاف کی ا±مید“ سے محروم ہوئے ان کے ”سینکڑوں“ ساتھی گرفتاریوں سے بچنے کے لئے روپوش بھی ہیں۔ ان کی روپوشی مگر ان کے خاندان والوں کو چین سے زندہ رہنے نہیں دے رہی۔
بات آگے بڑھانے سے قبل کھلے دل سے اعتراف کرنا لازمی تصور کرتا ہوں کہ 9مئی کے واقعات کے بعد ہماری سرکار کا رویہ تحریک انصاف کے ساتھ انتہائی سخت گیر ہوچکا ہے۔مذکورہ رویے کو جائز ٹھہرانے کی مجھ میں جرات ہی نہیں۔ساری عمر یہ سوچتے ہوئے گزاردی ہے کہ حکمرانوں کو اپنا دل کشادہ رکھنا چاہیے۔کوئی سیاسی کارکن انتہائی ڈھٹائی سے قانون کی خلاف ورزی پر بضد نہ ہوتواسے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع فراہم کردینا چاہیے۔ درگزر کا ماحول برقرار رکھتے ہوئے حکومتیں عوام سے مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آنے کا جواز چھین لیتی ہیں اور یوں اپنے اقتدار کی طوالت یقینی بناسکتی ہیں۔
ذاتی سوچ کے دیانتدارانہ اظہار کے بعد ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ لکھنے کو بھی مجبور محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں شاذہی ایسی حکومت دیکھنے کو ملی جس نے میری خواہش کے مطابق کشادہ دلی والا رویہ اختیار کیا ہو۔1988ءکے بعد وفاق میں آئی پیپلز پا رٹی نے اگرچہ دیگر جماعتوں کے مقابلے میں اپنے مخالفین اور ناقدین کے ساتھ قابل ستائش برداشت والارویہ اختیار کئے رکھا۔ نواز شریف کی تیسری حکومت بھی اس ضمن میں اپنی پہلی دو حکومتوں کے مقابلے میں بڑے دل کی حامل رہی۔تحریک انصاف کے دیرینہ اور ثابت قدم حامی ان دنوں یقینا کڑے وقت سے گزررہے ہیں۔ان کے ساتھ مگر جو سلوک ہورہا ہے بدقسمتی سے ہماری تاریخ کے تناظر میں انہونا نہیں۔ 1950ءکی دہائی سے وطن عزیز میں حکمرانوں کو للکارنے والے ہمیشہ ریاستی جبر کا نشانہ بنے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ثابت قدم حامیوں کے ساتھ ان دنوں جو ہورہا ہے اسے ”جائز“ٹھہرائے بغیر بھی پاکستان کے مخصوص سیاسی تناظر ہی میں دیکھنا پڑتا ہے۔
بات لمبی ہوجائے گی۔فی الوقت مجھے اصرار کرنا ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تحریک انصاف اپنے حامیوں کے ساتھ ہوئے ”سلوک“ کو نہایت مہارت کے ساتھ ایک منظم بیانیے کی صورت عالمی دنیا کے سامنے رکھ رہی ہے۔اس کا اثر ہمارے روایتی میڈیا میں فی الحال نظر نہیں آرہا۔طویل المدت تناظر میں لیکن تحریک انصاف کی اختیار کردہ حکمت عملی پاکستان کو نام نہاد عالمی برا دری کے روبرو شہری حقوق سے قطعاََ محروم ہوا ملک دکھانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ مثال کے طورپر روزانہ واشنگٹن میں تعینات امریکی اور غیر ملکی صحافیوں کے سامنے اپنے ترجمان کو مختلف سوالات کا جواب دینے کے لئے پیش کرتی ہے۔اس حوالے سے جو بریفنگ ہوتی ہے اسے براہِ راست دکھانے کی سہولت بھی میسر ہے۔1986ءسے امریکہ کاپیشہ وارانہ وجوہات کی بناءپر سفر کرتے ہوئے میں کئی بار وزارت خارجہ کی بریفنگ میں شریک ہوا ہوں۔امریکہ کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے کے لئے ان دنوں بھی اکثر اسلام آباد میں اپنے گھربیٹھے ہوئے میں اس بریفنگ کو انٹرنیٹ کی بدولت براہِ راست دیکھتا ہوں۔
پاکستان گزشتہ کئی ماہ قبل تک شاذہی اس بریفنگ میں زیر بحث آیا۔عمران حکومت کے خاتمے کے بعد مگر بتدریج تقریباََ ہر بریفنگ کے دوران ”سائفر“ کہانی کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔امریکی وزارت خارجہ کو بارہا مجبور کیا گیا کہ وہ اصرار کرے کہ واشنگٹن نے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا۔ وزارت خارجہ کے انڈرسیکرٹری ڈونلڈ لوکے ذریعے عمران حکومت کو دھمکی آمیز پیغامات بھی نہیں بھجوائے گئے تھے۔
”سائفر“ کے بعد اب تحریک انصاف کے خلاف حکومتی ”کریک ڈاﺅن“کا ذکر بھی شروع ہوگیا ہے۔اس کا ذکر کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کی ”انسانی حقوق“ کے ساتھ ”محبت“ کو مدنظررکھتے ہوئے پاکستان میں ”اظہار رائے کی آزادی“ یقینی بنانے کے لئے آواز بلند کرے۔حال ہی میں ایک اور نکتہ بھی اجاگر ہونا شروع ہوگیا ہے۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کو ایک پاکستانی صحافی نے ”اطلاع“ دی کہ ”لندن میں مقیم“ ایک یوٹیوبر نے دعویٰ کیا ہے کہ تحریک انصاف کے پاکستانی نڑاد امریکی شہری اگر اپنے وطن جانا چاہیں تو انہیں ویزا دینے سے انکارکردیا جاتا ہے۔امریکی وزارتِ خارجہ کا ترجمان اس الزام کے بارے میں بے خبر تھا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت بیان کرنے کو مجبور ہوا کہ امریکہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے سفارتخانے کو مجبور نہیں کرسکتا کہ وہ امریکہ کے کسی شہری کو اپنے ہاں آنے کا ویزا ہر صورت فراہم کرے۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ کہتے ہوئے اپنی جان تو چھڑالی۔اس کے روبرو ”لندن سے آئی“ اطلاع کی بنیاد پر لیکن جو سوال اٹھایا گیا اس نے میڈیا کی توجہ اچک لی۔ انور اقبال”ڈان“ اخبار کے واشنگٹن میں کئی برسوں سے مقیم مستقل نمائندے ہیں۔میرے دیرینہ دوست ہیں اور میری ہی طرح پرانی وضع کے صحافی بھی۔ انہوں نے بھی اس موضوع پر امریکی وزارت خارجہ کی بریفنگ کے دوران ہوئی گفتگو کو اپنے اخبار کے لئے لکھی خبر کا موضوع بنایا۔ 
و ہ خبر چھپ گئی تو امریکہ میں مقیم میرے چند ذاتی دوستوں نے جوتحریک انصاف کے حامی ہیں نہایت فکرمندی سے مجھے فون کئے۔ان میں سے کچھ دوستوں نے خاندانی تقاریب کے حوالے سے اگلے دو ماہ کے دوران پاکستان آنا ہے۔ گھبرائے دل کے ساتھ مجھ سے پوچھتے رہے کہ ”ان دنوں“ ان کا پاکستان آنا مناسب ہے یا نہیں۔جن دوستوں سے گفتگو ہوئی انہیں پاکستان آنے کے لئے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مگر ”لوگوں سے سنا“ تھا کہ جن پاکستانیوں کو ویزادرکار ہوتا ہے ان کا تعلق اگر تحریک انصاف سے ثابت ہوجائے تو ہمارا سفارتخانہ انہیں ویزا دینے سے انکار کردیتا ہے۔ان کے پاس اگرچہ ان افراد کے نام اور ٹیلی فون نمبر موجود نہیں تھے جن کے ساتھ رابطے کے بعد میں مبینہ ”خبر“ کی تصدیق کرسکتا۔یہ بات مگر چل نکلی ہے کہ تحریک انصاف کے پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کو ”پاکستان کا ویزا دینے سے انکار ہورہا ہے۔“