معیشت

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں بڑی کمی کیا گرے مارکیٹ میں کریک ڈاون کا نتیجہ ہے؟

Share

پاکستان میں کرنسی کی اوپن مارکیٹ میں گذشتہ تین دن سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی اور منگل اور بدھ کے روز ڈالر کی قیمت میں بیس روپے کی کمی ہوئی۔واضح رہے کہ پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں نگران حکومت کے قیام کے بعد تسلسل سے اضافہ دیکھا گیا اور ڈالر کا سرکاری ریٹ گذشتہ ہفتے کے اختتام پر 305 روپے پر پہنچا تو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 330 روپے کی سطح عبور کر گیا۔تاہم موجودہ ہفتے کے آغاز سے ڈالر کے اوپن مارکیٹ ریٹ میں کمی آنا شروع ہوئی اور دو روز میں اس کی قیمت میں بیس روپے کمی کے بعد اب یہ 312 روپے کی سطح تک گر گئی۔دوسری جانب انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں دیکھا گیا اور بدھ کے روز اس کی قیمت میں 12 پیسے کی معمولی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد ڈالر کی قیمت 306.98 روپے کی سطح پر آ گئی۔اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں ہونے والی بڑی کمی اس وقت سامنے آئی جب گذشتہ ہفتے کے اختتام پر ملک کے آرمی چیف نے کراچی اور لاہور میں کاروباری افراد سے ملاقات کی جہاں معیشت کی بحالی کے مختلف اقدامات کے علاوہ سمگلنگ کے خلاف کارروائیوں پر بھی بات ہوئی جس میں ڈالر کی سمگلنگ کی روک تھام کی بات بھی کی گئی۔آرمی چیف سے ملاقات کے بعد شروع ہونے والے کاروباری ہفتے میں ڈالر کی قیمت میں کمی ریکارڈ کی گئی تاہم یہ کمی اوپن مارکیٹ میں کی گئی۔کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد نے اوپن مارکیٹ میں ہونے والی کمی کو آرمی چیف کے کاروباری افراد سے ملاقات سے منسوب کرتے ہیں جس نے مارکیٹ میں مثبت رجحان کو جنم دیا۔تاہم کیا آرمی چیف سے تاجروں کی ملاقات اور سمگلنگ کی روک تھام کے اعلانات نے ڈالر کی قیمت کو کم کیا؟ اس کے بارے میں کرنسی کے کاروبار سے جڑے افراد اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ کچھ دوسرے عوامل بھی اس میں شامل ہیں۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ عوامل کیا ہیں۔

asim

اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں بڑی کمی کیوں ہوئی؟

انگریزی روزنامہ ڈان سے وابستہ مالیاتی امور کے سینیئر صحافی شاہد اقبال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا کاروبار قیاس آرائیوں پر چلتا ہے اور اسی بنیاد پر اس کی قیمت بڑھ رہی تھی۔انھوں نے کہا گذشتہ دو تین دن میں ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاون نے بھی اس سلسلے میں کام دکھایا جیسے کہ پشاور میں دو بڑی غیر لائسنس یافتہ کمپنیوں کے خلاف ایکشن ہوا تو اس کے بعد گرے مارکیٹ میں کام رک گیا۔انھوں نے کہا کہ جب گرے مارکیٹ میں کام رکا تو اس کا اثر اوپن مارکیٹ پر بھی آنا تھا۔انھوں نے کہا کہ ’اب حالت یہ ہے کہ فی الحال گرے مارکیٹ پر کریک ڈاؤن کی وجہ سے کوئی خریدار نہیں۔‘انھوں نے کہا کہ اسی طرح آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ڈالر کے اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق کو 1.25 فیصد تک محدود رکھنا ہے۔انھوں نے کہا نومبر میں آئی ایم ایف وفد نے پاکستان میں اگلے پروگرام کے اگلے جائزے کے لیے آنا ہے اور اس سے پہلے یہ فرق قائم کرنا ضروری ہے اور حکومتی اقدامات اسی تناظر میں اٹھائے گئے ہیں۔مالیاتی امور کے تجزیہ کار فہد رؤف نے اس سلسلے میں بتایا کہ جب اوپن مارکیٹ میں سختی کی گئی ہے تو خریدار نہیں جا رہا، اس لیے ریٹ کم ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ویسے تو معاشی اشاریوں میں کوئی ایسی بہتری نہیں آئی کہ ڈالر ریٹ کم ہو۔ایکسچینج کمپنیز اسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’یہ بات صحیح ہے کہ پشاور میں گرے مارکیٹ میں کریک ڈاؤن کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی کہ ڈالر وہاں نہیں جا رہا کیونکہ اس مارکیٹ میں کام کرنے والے افراد فی الحال گھبرا رہے ہیں۔‘’اسی طرح ایکسچینج کمپنیوں سے بھی جانچ پڑتال ہو رہی ہے جس کے بعد خریدار فی الحال آنے سے کترا رہے ہیں ورنہ دوسری طرف صورتحال ایسی نہیں کہ ڈالر کی سپلائی بڑھ گئی ہے اور اس سے اس کی قیمت گر گئی ہے۔‘

dollar

ڈالر کی گرے مارکیٹ کیا ہے؟

پاکستان میں ڈالر کی انٹر بینک مارکیٹ اور اوپن مارکیٹ کے ساتھ گرے مارکیٹ کا نام بھی اکثر سننے میں آتا ہے اور وہاں ڈالر کا ریٹ دونوں مارکیٹوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ظفر پراچہ نے اس گرے مارکیٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گرے مارکیٹ ایک غیر قانونی مارکیٹ ہے یعنی اس میں کام کرنے والے افراد بغیر کسی لائسنس یا حکومتی قواعد و ضوابط کے کام کر رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’پہلے تو حوالہ ہنڈی کو گرے مارکیٹ سمجھا جاتا تھا لیکن اب اس میں ڈالر کی کیش کی صورت میں خرید و فروخت بھی شروع ہو چکی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’جب انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر خریدا اور بیچا جاتا ہے تو اس کی باقاعدہ دستاویزات ہوتے ہیں کہ کون خرید رہا ہے اور کون بیچ رہا ہے تاہم گرے مارکیٹ میں ایسی کوئی چیز نہیں اور وہاں بنا کسی دستاویز کے ڈالر کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔‘شاہد اقبال نے اس سلسلے میں بتایا کہ گرے مارکیٹ دراصل غیر قانونی مارکیٹ ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اس میں بڑے کمرشل سنٹرز اور دوسرے کاروباری جگہوں پر مختلف اشیا کی خرید و فروخت کے پس پردہ ڈالر کی خرید و فروخت بھی ہوتی ہے۔’مثلاً کوئی موبائل شاپ والا جہاں موبائل کی خرید و فروخت کر رہا ہے تو وہ اس کی آڑ میں ڈالر کی خرید و فروخت بھی کرتا ہے اور اس کے کلائنٹس کو اس کا پتا ہوتا ہے۔‘انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس کے ساتھ کچھ ایکسچینج کمپنیاں بھی گرے مارکیٹ میں کام کرتی ہیں، مثلاً ایک شخص کسی ایکسچینج کمپنی سے ڈالر 320 روپے پر خریدنے گیا تو اسے کہا گیا کہ اس ریٹ پر دستیاب نہیں اور یہ ڈالر اسے 325 کے ریٹ پر ملے گا اگرچہ اس وقت مارکیٹ کا ریٹ 320 ہوتا ہے۔شاہد اقبال نے کہا کہ یہ بھی ڈالر کی گرے مارکیٹ ہے جو ایکسچینج کمپنیوں کے اندر بھی کام کرتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’گذشتہ مالی سال میں پاکستان کو 4.2 ارب ڈالر کے کم ترسیلات زر ملے۔ یہ ترسیلات زر پاکستان تو آئے تاہم یہ گرے مارکیٹ کے ذریعے پاکستان آئے اور ان کی کوئی دستاویز نہیں کیونکہ یہ بینکاری چینل کے ذریعے پاکستان نہیں پہنچے۔‘

کیا ڈالر کی سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے؟

پاکستان میں ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف بھی اقدامات اٹھانے کا حالیہ دنوں میں اعلان کیا گیا ہے۔ملک کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اس سلسلے میں اعلان کیا ہے کہ اجناس اور کرنسی کی سمگلنگ کی کسی صورت اجاز ت نہیں دی جائے گی۔شاہد اقبال نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’جہاں تک ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کی بات ہے تو وہ فی الحال نہیں ہو رہی یا اگر ہو رہی ہے تو بہت محدود پیمانے پر ہو رہی ہے کیونکہ مارکیٹ میں ڈالر کی سپلائی ہی کم ہے۔’ورنہ سٹیٹ بینک مارکیٹ سے ڈالر خرید کر ذخائر بڑھا لیتا ہے تاہم انھوں نے ڈالر کی سمگلنگ ہوتی ہے اور یہ ایران اور افغانستان کو ہوتی ہے۔`انھوں نے کہا کہ ’سمگلنگ کا جو مال پاکستان ان دونوں ملکوں سے آتا ہے اس کی ادائیگی ڈالروں میں ہوتی ہے اور اسی طرح وہ افغان جن کا پاکستان میں آنا جانا لگا رہتا ہے وہ روپوں کے بدلے ڈالر لے جاتے ہیں کیونکہ افغانستان میں تو ڈالر کہیں سے آتے نہیں اور پاکستان ہی واحد مارکیٹ ہے جہاں سے وہ ڈالر لے جا سکتے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح ایران سے ہونے والی سمگلنگ پر حکومت نے جان بوجھ کر چپ سادھی ہوئی ہے تاہم اس کے لیے بھی ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے جو سملگنگ کے زمرے میں آتی ہے کیونکہ اس کا بینکنگ سسٹم میں اندراج نہیں ہوتا۔‘ظفر پراچہ نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’سمگلنگ کے خلاف اقدامات تو ہونے چاہیے لیکن انھیں مستقل بنیادوں پر ہونا چاہیے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ڈالر جہاں سے سمگل ہو کر پڑوسی ملک میں جاتا ہے تاہم یہ وقتی اقدام نہیں ہونا چاہیے بلکہ مستقبل بنیادوں پر اس کا حل نکالنا چاہیے۔‘