پاکستان

سائفر کیس: عمران خان، شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی آئندہ ہفتے تک ملتوی

Share

آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی ان کیمرا سماعت کی۔

اسٹیٹ پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی عدالت میں پیش ہوئے جب کہ ایف آئی اے کی ٹیم بھی تفتیشی افسر کے ہمراہ عدالت آئی۔

عمران خان کے وکیل کے بیرسٹر سلمان صفدر اور خالد یوسف چوہدری عدالت کے روبرو پیش ہوئے جب کہ اس موقع پر شاہ محمود قریشی کی اہلیہ مہرین اور بیٹی مہر بانو عدالت پہنچیں۔

کیس کی آخری سماعت 9 اکتوبر کو ہوئی تھی جس کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو چالان کی نقول فراہم کردی گئیں تھیں اور عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے 17 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی تھی۔

تاہم آج فرد جرم عائد نہیں ہوسکی جب کہ عدالت نے صرف چالان کی کاپیاں ملزمان میں تقسیم کیں، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

سماعت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر اب آئندہ سماعت پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے گزشتہ سماعت کے دوران چالان کی کاپیاں قبول نہیں کی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ فرد جرم آئندہ ہفتے عائد کی جائے گی، عدالت نے اس کے لیے ابھی کوئی تاریخ طے نہیں کی۔

سماعت شروع ہونے سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وکیل شاہ خاور نے بتایا تھا کہ عدالت نے فرد جرم کے لیے آج کا دن مقرر کیا۔

وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ عدالت نے فرد جرم کے لیے آج کا دن مقرر کیا تھا—فوٹو:ڈان نیوز
وکیل شاہ خاور نے بتایا کہ عدالت نے فرد جرم کے لیے آج کا دن مقرر کیا تھا—فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر عمران خان نے چالان قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی تھی، دیکھتے ہیں کہ اب کیا صورتحال بنتی ہے۔

یاد رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

خیال رہے کہ اس کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی 10 اکتوبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، کیس کی گزشتہ سماعت اٹک جیل میں ہوئی تھی جس کے بعد انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں سابق وزیر اعظم اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔