منتخب تحریریں

ہماری آنکھوں پر بندھی غزہ کی پٹی

Share

ہم مظلوموں کے لیے دعاؤں کے کنٹینرز بھر بھر کے بھیج تو رہے ہیں، آنکھوں سے لگے رومال بھگو تو رہے ہیں، سینہ کوبی کر تو رہے ہیں، جھولیاں پھیلا پھیلا کے کوس تو رہے ہیں، باآوازِ بلند کہہ تو رہے ہیں کہ رب کرے دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں۔ ہم سڑکوں سڑک یکجہتی کیمپ لگا کے جہادی ترانے بجا تو رہے ہیں۔ گویا اپنی اخلاقی ذمہ داریاں نبھا تو رہے ہیں۔

ہم انھیں دھمکا تو رہے ہیں کہ اگر بمباری و ناکہ بندی جاری رہی تو اپنے سفارت کار یروشلم سے واپس بلا لیں گے، تعلقات کی بحالی کا عمل روک دیں گے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تمھیں دنیا بھر میں رسوا کریں گے، بے مثال ٹرولنگ کریں گے، ڈیجیٹل میمز کے ذریعے تمھاری ہنسی اُڑاتے رہیں گے، جگتوں کے بھالوں، کٹیلے فقروں کے خنجروں اور طنز کے تیروں سے تمھارا سینہ چھلنی کرتے رہیں گے۔

تمھارا اصل چہرہ دنیا کو دکھاتے رہیں گے، اپنی اپنی مسجدوں کے منبر پر بیٹھ کے ہوا میں مُکے چلاتے ہوئے شعلہ بیانی کا فرض نبھاتے رہیں گے، اپنے اپنے حکمرانوں کی بے حسی کوستے رہیں گے۔ قریہ قریہ مذمتی جلوسیاں نکالتے رہیں گے۔

ٹی وی سکرینز پر تمھاری اور تمھارے مغربی پشت پناہوں کے اصل عزائم بے نقاب کرتے رہیں گے۔ اخبارات میں تمھارے کارٹون چھاپیں گے، تمھاری یا تم سے کاروبار کرنے والی تجارتی کمپنیوں اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل بھی جاری رکھیں گے۔

کیل کانٹے سے لیس ہونے کے باوجود تمھاری سراغرسانی کی صلاحیت اور عسکری کمزوریوں کا پول کھولنے کا ہمارے دفاعی مبصرین کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ ہم تجویز دیتے رہیں گے کہ ماشااللہ اگر ستاون ممالک کے ڈیڑھ ارب مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھر کے بھی تم پر پھینکیں تو تم اسی میں ڈوب جاؤ گے۔

ہماری آنکھوں پر بندھی غزہ کی پٹی

ہمارے ڈیجیٹل دانشور تمھیں بتاتے رہیں گے کہ شرافت کو کمزوری نہ سمجھو۔ تمھارے پشت پناہوں نے تمھاری اندھا دھند حمایت جاری رکھی اور ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہم ان کے لیے نصف صدی پہلے کی طرح تیل اور گیس کی رسد روک دیں گے۔

ڈرو اس دن سے جس روز چالیس مسلمان ممالک کی متحدہ افواج نے راحیل شریف کی کمان میں اپنی یونیفارمز اڑس لیں، بوٹوں کے تسمے باندھ لیے، پھلترو سے بندوقوں کی نالیں صاف کر کے کھٹ کھٹ میگزین بھر لیے، بمبار طیاروں کی ٹنکی فل کر لی، توپوں کو ٹاکی مار کے لشکا کے ان کا رُخ تمھاری جانب کر دیا، میزائل بیٹریوں اور ڈرونز کے ریموٹس میں تازہ سیل ڈلوا لیے، ازقسمِ غوری، حتف، غزنوی سیدھے کر لیے، جنگی بحری جہاز ریپیئرنگ ڈاکیارڈز سے نکلوا کے بحیرۂ احمر اور بحیرۂ روم کی جانب ہنکال دیے، نہر سوئز کی ناکہ بندی کر دی، تمھارے ہوائی جہازوں کے لیے اپنی اپنی فضائی حدود بند کر دیں۔

تمھارے اثاثے منجمد کر دیے، قرضوں کی ادائیگی معطل کر دی تو تمھیں لگ پتا جائے گا کہ ہم تا بہ ابد سعی و تغئیر کے ولی ہیں، ہم نے قیصر و کسری کی فصیلوں کے کنگرے گرا دیے تھے، ہم بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والوں اور اپنی کشتیاں جلانے والوں کی اولاد ہیں، وہ گھوڑے جن کے سموں سے چنگاریاں نکلتی تھیں۔

ہمارے اجداد وہ ہیں جو نیل کے ساحل سے تا بہ خاکِ کاشغر داڑھیاں منہ میں دبا کشتوں کے پشتے لگاتے تھے۔ تمھاری مائیں اپنے بچوں کو ان ہی جرنیلوں کا نام لے لے کے ڈراتی تھیں۔ وہ جرنیل جو ایک مظلوم عورت کی پکار پر لاؤ لشکر سمیت بھی ستم رسیدہ آواز کے تعاقب میں دوڑ پڑتے تھے۔

مگر تمھیں تو یہ سب مذاق لگ رہا ہو گا نا! یقین نہیں آ رہا نا؟ تم اسے کھوکھلی بڑک بازی سمجھ رہے ہو گے؟ تمھارے دماغ میں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور، جو گرجتے ہیں وہ کم ہی برستے ہیں جیسے پھٹیچر محاورے کلبلا رہے ہوں گے؟

چلو ہم بندوبست کرتے ہیں کلامِ اقبال اور نسیم حجازی اور عنایت اللہ کے دلوں کو گرمانے والے ناول تمھیں انگریزی و عبرانی میں بھجوانے کا۔ تاکہ انھیں پڑھ کے تمہارے ہاتھ پاؤں پھول جائیں اور تمھاری انگلیوں سے بندوقیں چھوٹ جائیں۔

تمہیں کیا لگتا ہے کہ ہم روئی کے گالے ہیں جو ایک پھونک سے ہوا میں اڑ جائیں گے۔ تم سمجھتے ہو کہ ہمارے بازو شل ہو گئے ہیں؟ اگر ہم یمن برباد کر سکتے ہیں، شام کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتے ہیں، لیبیا کو توڑ سکتے ہیں، افغانستان کو کھکھل کر سکتے ہیں، بم باندھ کے اپنوں کے درمیان پھٹ سکتے ہیں، شیعہ سنی کو لٹال سکتے ہیں، برسہا برس قبائلی جنگیں لڑنے کے صلاحیتوں سے مالامال ہیں، اندرونی دشمنوں کے منھ پر ٹیپ لگا سکتے ہیں تو تم بھلا کس کھیت کی مولی ہو؟

بس ایک بار ہمیں اپنے آپ سے فرصت مل جائے تو پھر خیریت مناؤ۔ ہماری قوتِ برداشت کا مزید امتحان مت لو۔ ورنہ تم سے ہی خریدے اربوں ڈالر کے ٹینک، طیارے، توپیں، ڈرونز، بھانت بھانت کے میزائل، سمارٹ بم، بارودی سرنگیں اور جاسوسی آلات کہیں تم پر ہی استعمال نہ کر بیٹھیں اور بعد میں تم اقوامِ متحدہ جیسی تنظیموں کے آگے دہائی دیتے پھرو۔

اس وقت ہم نے اپنے لوگوں کو بڑی مشکل سے روک رکھا ہے اور انھیں مصروف رکھنے کے لیے مذمتی قرار دادوں کی منظوری، دستخطی مہمات، چندے کے ڈبے کھڑکانے اور آج پھر ایک صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہے ٹائپ بیانات پر لگا رکھا ہے اور انھیں صبر کے فوائد سے بھی کماحقہہ آگاہ کر رہے ہیں۔

شاید ہم انھیں زیادہ دیر نہیں روک پائیں گے۔ کچھ جوشیلی تنظیموں نے تو تمھارے دانت بجانے کے لیے رضاکاروں کی بھرتی کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔

ہمارا خون کس قدر ابل رہا ہے اس کا اندازہ تمھیں ایک مقامی اخبار کی آٹھ کالمی سرخی سے ہی ہو جانا چاہیے۔

’سمہ سٹہ کے عوام اسرائیل کی نابودی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘

غزہ کی پٹی دراصل ضمیر کی آنکھوں پر بندھی پٹی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پٹی اتر جائے اور ہم گڑگڑاتے ہوئے قیامت کے دن تمھارا گریبان پکڑنے کی سوگند کھا لیں۔ باز آ جاؤ۔ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔