پاکستان

لاہور ہائیکورٹ کے 11 میں سے 2 ججوں نے بلاسود قرض کی درخواست واپس لے لی

Share

لاہور ہائی کورٹ کے 11 ججوں میں سے 2 ججوں نے مکان کی خریداری/تعمیر کے لیے 3 کروڑ 28 لاکھ روپے کے بلاسود قرض کی درخواستیں واپس لے لیں۔

 رپورٹ کے مطابق رواں سال ستمبر میں نگران حکومتِ پنجاب کی جانب سے 11 ججوں کو 36 کروڑ 15 لاکھ روپے کے بلاسود قرضے کی فراہمی کے اقدام کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب توانائی کے نرخ آسمان کو چھونے کے سبب عوام بدترین مہنگائی کے دباؤ کا شکار ہیں۔

ہر جج کو 3 برس کی کُل 36 بنیادی تنخواہوں کے برابر سود سے پاک قرض حاصل کرنے کی اجازت دی گئی تھی، ہر جج کی بنیادی تنخواہ 9 لاکھ 12 ہزار 862 روپے ماہانہ تھی، ان ججوں کو 144 ماہ (12 سال) میں اپنی تنخواہوں/پنشن سے کٹوتی کے ذریعے یہ قرض واپس کرنا تھا۔

تاہم تازہ ترین پیش رفت میں جسٹس رسال حسن سید اور جسٹس صفدر سلیم شاہد نے لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار (بی اینڈ ایف) کے ذریعے حکومتِ پنجاب کو آگاہ کیا ہے کہ وہ اس سہولت سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

دونوں ججوں کی جانب سے 11 ججوں کی فہرست سے اپنا نام نکالنے کی درخواست کابینہ کی نگران قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ترقی کے اجلاس میں حکومتِ پنجاب کو پہنچا دی گئی۔

جسٹس صفدر سلیم شاہد 31 جولائی 2023 سے پہلے ہی ریٹائر ہو چکے ہیں، تاہم ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل قرض کی درخواست دائر کر دی گئی تھی۔

16 اکتوبر کو کابینہ کی نگران قائمہ کمیٹی برائے فنانس ڈویلپمنٹ کے اجلاس کے منٹس کے مطابق وزیراعلیٰ نے کمیٹی کے 6 ستمبر کے اجلاس کے منٹس کی منظوری دی تھی اور 11 ججوں کو ان کے گھروں کی خریداری/تعمیر کے لیے بلاسود قرضے کے لیے 36 کروڑ 14 لاکھ روپے جاری کرنے کی اجازت دی تھی۔

ان 11 ججز میں جسٹس احمد ندیم ارشد، جسٹس صفدر سلیم شاہد، جسٹس رسال حسن سید، جسٹس شکیل احمد، جسٹس محمد طارق ندیم، جسٹس محمد امجد رفیق، جسٹس عابد حسین چٹھہ، جسٹس انور حسین، جسٹس علی ضیا باجوہ، جسٹس محمد رضا قریشی اور جسٹس راحیل کامران شامل ہیں۔

بعد ازاں 16 اکتوبر کو کابینہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار (بی اینڈ ایف) نے حکومت پنجاب سے کہا کہ وہ اس معاملے میں جاری ہونے والے قرض کی منظوری کے حکم نامے میں جسٹس رسال حسن سید اور جسٹس صفدر سلیم شاہد کے نام شامل نہ کرے۔

نتیجتاً کابینہ کی قائمہ کمیٹی نے دونوں ججوں کے نام واپس لینے کی منظوری دے دی، اس نے 9 ججوں کو 3 کروڑ 28 لاکھ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی جس کے لیے مجموعی طور پر حکومت پنجاب کو ایک ساتھ 29 کروڑ 58 لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔

واضح رہے کہ حکومتِ پنجاب اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کو بجلی یوٹیلیٹی الاؤنس کی مد میں 3 ارب 10 کروڑ روپے کی سبسڈی دے رہی ہے۔

ججوں کے لیے بجلی کے یوٹیلیٹی الاؤنس کے فارمولے میں بتایا گیا ہے کہ اگر جج کو ایک لاکھ روپے کا بجلی کا بل آتا ہے تو وہ آدھی رقم ادا کرے گا اور باقی رقم الاؤنس کے تحت ایڈجسٹ کی جائے گی۔

علاوہ ازیں حکومت پنجاب 4 ارب 40 کروڑ روپے کی سبسڈی دے رہی ہے جس میں پنجاب سول سیکرٹریٹ کے ملازمین کے لیے ایک ارب 10 کروڑ روپے، پنجاب کے وزیراعلیٰ ہاؤس کے لیے 8 کروڑ روپے اور گورنر ہاؤس کے لیے 3 کروڑ 30 لاکھ روپے شامل ہیں۔