صحت

’میرے شوہر زندگی بھر سگریٹ پیتے رہے مگر کینسر جیسی موذی بیماری مجھے ہو گئی‘

Share

انڈین خاتون نلنی نے اپنی ساری زندگی کبھی سگریٹ نوشی نہیں کی، لیکن اپنی شادی شدہ زندگی کے دوران وہ اپنے شوہر کے ساتھ مسلسل سگریٹ کے دھوئيں میں سانس لیتی رہیں اور بعدازاں انھیں پھیپھڑوں کے کینسر اور اس سے متعلقہ پیچیدگیوں کی تشخیص ہوئی۔

اس معاملے میں نلنی ستیہ نارائن کوئی واحد خاتون نہیں ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غیر فعال تمباکو نوشی (یعنی وہ افراد جو خود تو براہ راست تمباکو نوشی نہیں کرتے مگر ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں لوگ سگریٹ پیتے ہیں اور اس کے دھویں اور دیگر مضر اثرات سے وہ متاثر ہوتے ہیں) کی وجہ سے ہر سال 12 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

نلنی جو اب ایک 75 سالہ دادی ہیں وہ کہتی ہیں: ’اب صورتحال یہ ہے کہ میں اپنی ناک سے سانس نہیں لے سکتی۔ مجھے اپنی گردن میں ڈاکٹروں کی جانب سے کیے گئے ایک سوراخ سے سانس لینا پڑتا ہے جسے سٹوما کہتے ہیں۔‘

نلنی نے اپنی زندگی میں کبھی سگریٹ نوشی نہیں کی لیکن وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ رہیں جو ان کی موجودگی میں 33 سال تک سگریٹ پیتے رہے۔ انھیں اپنے شوہر کی موت کے پانچ سال بعد سنہ 2010 میں کینسر کی تشخیص ہوئی۔

وہ کہتی ہیں: ’میرے شوہر چین سموکر (وہ فرد جو انتہائی کثرت یا ایک کے بعد ایک سگریٹ پیتے ہیں) تھے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ان کی سگریٹ نوشی کا مجھ پر اثر پڑے گا۔ میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ زیادہ تمباکو نوشی سے میرے شوہر کی صحت پر اثر پڑے گا۔ میں ان سے سگریٹ نوشی بند کرنے کو کہتی تھی لیکن انھوں نے پوری زندگی کبھی میری بات نہیں مانی۔‘

نلنی اب جنوبی انڈیا کے معروف شہر حیدرآباد میں رہتی ہیں۔

نلنی کو اپنی پہلے والی آواز واپس نہیں ملی
،تصویر کا کیپشننلنی کو اپنی پہلے والی آواز واپس نہیں مل سکی

آواز کی محروم

ایک دن نلنی اپنی پوتی جنانی کو کہانیاں سُنا رہی تھیں کہ انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی آواز کچھ خراب ہو گئی ہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ اس آواز سے محروم ہو گئیں تو قدرت نے انھیتں عطا کی تھی اور ان کی منہ سے نکلنے والی آوازیں مشکل سے دوسروں کو سمجھ آتیں کیونکہ وہ صاف نہیں بول پاتی تھیں۔ انھیں سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی تھی۔

انھیں ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا جہاں انھیں پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی۔ ڈاکٹروں نے ان کے لیرنکس اور تھائیرائیڈ کو نکال دیا۔

وہ کہتی ہیں: ’اب میں بول نہیں سکتی تھی۔ یہ بہت بُرا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ میں اپنی اصلی آواز کبھی واپس حاصل نہیں کر سکوں گی۔‘

’ہر طرف ٹیوب ہی ٹیوب تھے‘

جنانی کی عمر اب 15 سال ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ کیسے اس کی خوش گفتار دادی اچانک بیمار ہو گئیں۔ انھوں نے کہا: ’جب پتہ چلا کہ انھیں کینسر ہے، تو وہ ہفتوں تک گھر پر نہیں بلکہ ہسپتال میں رہیں۔‘

‘جب وہ گھر واپس آئی تو ان کے جسم پر ہر نالیاں ہی نالیاں (ٹیوب) لگی ہوئی تھیں۔ اُس وقت میں 4 سال کی تھی، ہمیں دن میں کئی بار گھر صاف کرنا پڑتا تھا۔ ایک نرس ان کی دیکھ بھال کے لیے موجود رہتی تھی۔ اس وقت اس بیماری کی سنگینی کا مجھے پتہ ہی نہیں چلا، لیکن میں نے ان سب چیزوں کو محسوس کیا۔ یہ سب بہت مایوس کن تھا۔‘

کینسر

سگریٹ

نلنی کا بہتر ڈھنگ سے علاج ہوا اور وائبریشن وائس باکس کی مدد سے انھوں نے کچھ حد تک دوبارہ بات کرنا شروع کر دی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنے شوہر کی وجہ سے کینسر ہوا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں: ’تمباکو نوشی کرنے والے زہریلے دھوئیں چھوڑتے رہتے ہیں۔ لیکن ہم جیسے لوگ، جو مسلسل ان جیسے لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں وہ ان زہریلے دھوئیں میں سانس لیتے ہیں۔‘

کینسر کا سبب بننے والے عوامل

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی قسم کا تمباکو انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہے اور تمباکو کی تھوڑی مقدار بھی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘

عالمی ادارہ صحت کے یورپی ڈویژن آف ٹوبیکو میں کام کرنے والی انجیلا چیبانو کہتی ہیں کہ ’سگریٹ کے دھوئیں میں 7000 سے زیادہ مختلف قسم کے کیمیکلز ہوتے ہیں جن میں سے 70 کیمیکل کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ایک گھنٹے تک ایسے ماحول میں سانس لینا جہاں سگریٹ کا دھواں موجود ہو آپ کے دل کی خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔‘

تصویر

بچوں میں اموات

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تقریباً 65 ہزار بچے غیر فعال یا بالواسطہ طور پر سگریٹ نوشی (یعنی ایسے ماحول میں رہنا جہاں سگریٹ کا دھواں موجود ہو) کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

وہ بچے جو سیکنڈ ہینڈ بالواسطہ طور پر دھوئیں میں سانس لیتے ہیں ان کے کان میں انفیکشن ہونے کا خطرہ موجود رہتا ہے جو سماعت میں کمی یا بہرے پن کا باعث بن سکتا ہے۔

انجیلا کہتی ہیں: ’چھوٹے بچوں میں سانس کی شدید بیماری ہونے کا امکان 50 سے 100 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ان میں دمہ ہونے کا زیادہ امکان بھی بڑوں سے زیادہ ہوتا ہے۔‘

تمباکو نوشی پر پابندی

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے اور تمباکو نوشی نہ کرنے والے دونوں کا خیال ہے کہ تمباکو نوشی پر پابندی ہونی چاہیے۔ انجیلا کہتی ہیں کہ ’تمباکو نوشی سے پاک ماحول سگریٹ نوشی نہ کرنے والوں کی صحت کی حفاظت کا ایک طریقہ ہے۔‘

’کسی کو اپنے یا اپنے بچوں کے قریب سگریٹ نوشی نہ کرنے دیں کیونکہ صاف ہوا بنیادی انسانی حق ہے۔‘

لیکن تمباکو کی مصنوعات پر پابندی لگانا اتنا آسان نہیں ہے۔ گرینڈ ویو ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایک تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تمباکو کی عالمی صنعت کا کاروبار 850 ارب امریکی ڈالر ہے۔

یہ تعداد افریقہ کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک نائجیریا کی جی ڈی پی سے دگنا ہے۔

لیکن تمباکو کمپنیاں تمباکو نوشی پر پابندی لگانے کی کسی کوشش کو شکست دینے کی پوری کوشش کرتی ہیں اور اکثر ان کی یہ کوششیں کامیاب بھی ہوتی ہیں۔

نلنی

’شوہر پر غصہ نہیں‘

حیدرآباد میں مقیم نلنی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے لیے نلنی اپنے شوہر کو مکمل طور پر مورد الزام نہیں ٹھہراتیں۔ ان کا تمباکو کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن انھیں پھر بھی اپنی گردن میں سوراخ سے سانس لینا پڑتا ہے اور وہ صرف نرم غذا ہی کھا سکتی ہیں۔

لیکن پھر بھی انھوں نے ایک آزاد زندگی میں جینا سیکھ لیا ہے۔ وہ خود کو ’کینسر فائٹر‘ (یعنی کینسر سے لڑنے والی) کہتی ہیں۔

انھوں نے کلیرینٹ (بگل نما ایک ساز) بجانا سیکھا ہے تاکہ وہ یہ بتا سکیں کہ انھوں نے کینسر کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔

اب وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارتی ہیں۔ ان کی پوتی جنانی جانوروں کی ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں اور وہ اکثر اپنی دادی سے سائنس کا سبق لیتی ہیں۔

’مجھے اپنی دادی پر فخر ہے۔ وہ سب کے لیے متاثر کن ہیں۔ میں نے ان جیسی حسین مسکراہٹ والی دادی کسی کی نہیں دیکھیں۔‘

75 سالہ نلنی غیر فعال تمباکو نوشی کے خطرات کے بارے میں بیداری پھیلانے کے لیے سکولوں، کالجوں، میٹنگز اور دیگر کئی مقامات کا دورہ کرتی ہیں۔ اکثر وہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے اپنی کہانی سناتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جو کچھ ہوا اس پر رونے اور پشیمانی کا اظہار کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا تھا۔ اس سے میرا مسئلہ حل نہیں ہونے والا تھا۔ میں نے سچ کو قبول کر لیا اور مجھے اپنی بیماری کے بارے میں بات کرنے میں کبھی شرم محسوس نہیں ہوئی۔‘