منتخب تحریریں

ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دعائیں

Share

یاروں کی محفل تھی ، گپ شپ چل رہی تھی ، کھانا ہم کھا چکے تھے، چائے کا انتظار تھا ، ایسے میں کسی دوست نے فقرہ اچھال دیا کہ ڈیڑھ ارب مسلمان فلسطینیوں کے لیے دعا کر رہے ہیں مگر اُن کی دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں، کیا وجہ ہے ؟یہ بات کہنے کی دیر تھی کہ بحث چھِڑ گئی ، کسی نے کہا کہ دعا انسان اور رب کا باہمی معاملہ ہے لہذا اِس کے لیے اجتماعی اصول وضع نہیں کیے جا سکتے کہ کس قسم کی دعائیں قبول ہوں گی ۔ایک اور دوست نے قرآن کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دیا کہ خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہ کرے۔اسی دوست نے سورۃالبقرہ کی آیت 186بھی سنائی جس میں اللہ کہتا ہے: ’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اِس لیے لوگوں کوبھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘پھر یہ بات بھی کی گئی کہ یہ دنیا اسباب کی دنیاہے اسی لیے ہماری وہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں جو دنیا کے مسلمہ اصولوں سے متصادم ہوں، فلسطینی کمزور ہیں، اُن کا دشمن طاقتور ہے،یہ دنیا طاقت کے اصولوں پر چلتی ہے اِس لیے ڈیڑھ ارب مسلمان بے بس ہیں اور اُن کی دعائیں رائیگاں جا رہی ہیں ۔

دعا سے متعلق سوالات صدیوں پرانےہیں مگر آج تک اِن کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا ، اِس ضمن میں علمائے کرام جو جوابات دیتے ہیں انہیں سُن کر جدید دور کا مسلمان چُپ تو ہوجاتا ہے مگر مطمئن نہیں ہوتا ۔فلسطینیوں کے مسئلے کو ہی لے لیں،اِن کی اکثریت مسلمان ہے، مجبور ہے ، مظلوم ہے، نہ یہ دیگر قوموں کی طرح عیاش اور فاسق و فاجر ہیں اور نہ ہی اِن میں کوئی اجتماعی برائی پائی جاتی ہے ،دنیاکی سب سے بڑی جیل میں گزشتہ 75 برسوں سے محصور ہیں، انہوں نے اپنی حالت بدلنے کی تمام کوششیں کر ڈالیں مگر بے سُود ، جنگ بھی کی ،صبر بھی کیا، اب انہیں کیا کرنا چاہیے کہ اللہ اِن کی دعا سُن لے؟کیا ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں پندرہ سو بھی صالح نہیں جن کی دعا میں طاقت ہو؟ اور پھر دو دو ماہ کے فلسطینی بچوں کا کیا قصور ہے، وہ اپنی حالت بدلنے کی کیا کوشش کرتے، انہیں تو اسرائیل نے اسپتال کے ’انکیوبیٹر‘ میں ہی میزائل مار کر شہید کردیا، اُن کی کس بات کی آزمائش ہے؟ چند سال پہلے افغانستا ن کے ایک اسپتال پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا اور لیبر روم میں گھُس کر عورتوں اور نومولود بچوں کو مار دیا تھا ، کیا اُن کے پیاروں نے رب سے اپنی صحت سلامتی کی دعا نہیں مانگی ہوگی؟اگر اِس کا جواب آزمائش ہے تو یہ کس کی آزمائش ہے ، جو بچے مرگئے اُن کی یا جو ماں باپ زندہ بچ گئے اُن کی؟اب آتے ہیں اُن باتوں کی طرف جن کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ خدا نےطے نہیں کر رکھیں لہذا اگر ہم دعا کے ذریعے مانگیں گے تو وہ ہمیں دے گا بشرطیکہ وہ ہمارے حق میں بہتر ہوں گی وگرنہ اُس کے بدلے آخرت میں اجر مل جائے گا۔پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ خدا کی کائنات میں طے شدہ باتیں کیا ہیں۔ جیسا کہ علمائے کرام مانتے ہیں کہ یہ اسباب کی دنیا ہے اوریہاں طبعی قوانین لاگو ہیں جوکہ طے شدہ ہیں، لہذایہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص اٹھارہویں منزل سے چھلانگ لگائے اور زمین پر گرنے کی بجائے آسمان کی جانب کھنچا چلا جائے۔اسی طرح اسباب کی دنیا میں امریکہ ، اسرائیل اور نیٹو ممالک جنگی اعتبار سے طاقتور ہیں اور کمزور اقوام اُن کے سامنے بے بس ہیں ، یہ بات بھی چونکہ طے ہوگئی ہے اِس لیے محض دعا سے دشمن کی توپوں میں کیڑے نہیں پڑیں گے ۔اب سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس کے بعد کون سی باتیں باقی بچتی ہیں جو طے شدہ نہیں اور جن پر عمل کرنے سے خدا کے اجتماعی نظام میں بھی خلل نہیں پڑتا۔ایک دعا یہ ہوسکتی ہے کہ یااللہ میری اولاد کو نیک راستے پر چلا،دیکھا جائے تو یہ دعا بھی ٹھیک نہیں کیونکہ خدا کی اسکیم کے مطابق ہر بندے نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق نیکی اور بدی پر چلنے کا فیصلہ کرنا ہے، اسی بنیاد پر آخرت میں اسے جنت یا جہنم ملے گی، اگر خدا باپ کی دعا قبول کرلے گا تو اپنی اجتماعی اسکیم کے خلاف جائے گا جو کہ ممکن نہیں ۔ایک دعا صحت کی بھی مانگی جا سکتی ہے مگر اُس کی قبولیت کا بھی کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر کسی کی آنکھ ضائع ہوجائے تو میڈیکل سائنس کی مدد سے مصنوعی آنکھ تو لگائی جا سکتی ہے مگر دعا سے وہاں نئی آنکھ پیدا نہیں کی جا سکتی کیونکہ ’اسباب کی دنیا ‘میں یہ بات بھی خدا کے قانون کے خلاف ہوگی ۔اگر کسی شخص کی دل کی شریانیں بند ہوجائیں تو اُس کا دعا پر چاہے جتنا مرضی اعتقاد ہو، وہ سرجن سے بائی پاس آپریشن ہی کروائے گا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر دعا کے بارے میں قرآنی آیات کا مفہوم کیا ہے ۔اِس کا جواب دو باتوں میں پوشیدہ ہے ۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ دعا صرف آخرت میں اپنے رب کے حضور سرخرو ہونے کے لیے کام آئے گی تو یہ معاملہ شیشے کی طرح صاف ہوجاتا ہے ، مادی کائنات سائنسی اور آفاقی اصولوں پر چلتی ہے جنہیں دعا کے ذریعے تبدیل کروانا نہ خدا کی منشا ہے اور نہ اُس کی اسکیم کا حصہ ،یہی وجہ ہے کہ ایک ملحد کے دل کی شریانیں بھی جراحی کے ذریعے کھول دی جاتی ہیں اور مومن کی بھی، جبکہ دوسری طرف دیکھیں توآخرت مادی اصولوں کے تابع برپا نہیں ہوگی لہذا وہاں دعا اور نیک اعمال کام آئیں گے، یہی قرآن کاوعدہ ہے ۔ ایک آخری بات اِس ضمن میں یہ سمجھنے کی ہے کہ دنیاوی معاملات میں دعا کی قبولیت کا شرف صرف نبیوں اور پیغمبروں کو حاصل ہواہے ، نبی کی دعاجب طبعی قوانین کے برعکس کام کرتی ہے تو معجزہ کہلاتی ہے ، لہذا اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اُس کی دعا دنیاوی قوانین تبدیل کردے گی تو دراصل وہ معجزے کا دعویٰ کرتا ہے جو صرف نبیوں اور پیغمبروں کی خصوصیت ہے اور نبی آخرالزماںﷺ کے بعد معجزوں کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔وما علينا الا البلاغ المبين۔