جمالیات

پاکستانی فلم انڈسٹری بھارتی شوبز کی توسیع تھی، واسع چوہدری

Share

معروف فلم لکھاری، ٹی وی میزبان اور اداکار واسع چوہدری کا کہنا ہے کہ دراصل پاکستانی فلم انڈسٹری بھارتی شوبز کی توسیع تھی، پہلے یہاں ایک ہی ملک ہوا کرتا تھا، فلموں میں کام کرنے والے لوگ بھی وہی تھے جو بعد میں کچھ پاکستان تو کچھ ہندوستان رہ گئے۔

واسع چوہدری نے حال ہی میں احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے شوبز انڈسٹری سمیت دیگر معاملات پر کھل کر بات کی۔

انہوں نے اپنی ’جوانی پھر نہیں آنی‘ سمیت دیگر فلموں پر بھارتی فلموں کی کاپی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا کہ ایسی باتیں احمقانہ ہیں اور ایسی باتوں کا جواب دینا بھی فضول ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ جب انہوں نے ’جوانی پھر نہیں آنی‘ فلم لکھی، تب ان پر تنقید کی گئی کہ انہوں نے بھارتی اسٹائل کو کاپی کیا لیکن انہوں نے کسی بھی تنقید کا جواب نہیں دیا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ’جوانی پھر نہیں آنی‘ 6 سے 7 ماہ میں لکھ کر مکمل کی تھی جب کہ ہدایت کار ندیم بیگ کی بھی وہ ہدایت کردہ پہلی فلم تھی۔

ان کے مطابق ’جوانی پھر نہیں آنی‘ نے 32 کروڑ روپے کی کمائی کی تھی لیکن اس سیریز کی دوسری فلم نے 50 کروڑ سے بھی زائد کمائی کی اور وہ سیریز کے طور پر فلمیں بنانے کے حق میں ہیں۔

واسع چوہدری نے پاکستانی فلموں پر بھارتی فلموں کی کاپی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل پاکستان اور یہاں کی فلم انڈسٹری ہی بھارت کی توسیع ہے۔

انہوں نے دلیل دی کہ تقسیم سے قبل یہاں ایک ہی ملک تھا اور شوبز انڈسٹری میں کام کرنے والے لوگ بھی وہی تھے۔

اداکار کا کہنا تھا کہ تقسیم کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری دراصل بھارتی شوبز انڈسٹری کی توسیع تھی۔

فلم لکھاری نے کہا کہ پاکستان کی پہلی فلم ’تیری یاد‘ جو کہ 1948 میں ریلیز ہوئی تھی، اس میں بھی وہی اسٹائل تھا جو کہ اس وقت کی بھارتی فلموں میں ہوتا تھا، کیونکہ تقسیم سے قبل ہندوستان اور پاکستان کے لوگ ایک ہی تھے، ان کی سوچ اور کام کرنے کا طریقہ بھی ایک ہی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی فلموں کا کلچر اور اسٹائل ایک ہی تھا، ماضی میں مرحوم وحید مراد اور ندیم بھی درختوں کے گرد اسی طرح رقص کیا کرتے تھے جس طرح بھارتی اداکار کرتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں بھی پاکستانی فلموں میں آئٹم سانگ شامل ہوتے رہے ہیں لیکن وہ ایسے گانوں کو فلم کا حصہ بنانے کےحق میں نہیں۔

واسع چوہدری کے مطابق آئٹم سانگ کو ’اسپیشل سانگ‘ کہا جاتا تھا لیکن اسے بھارتی فلم انڈسٹری نے ’آئٹم‘ کا نام دیا اور ہم نے اسی نام کو کاپی کیا، کیوں کہ ہم محنت نہیں کرتے، ہم نے اس کے لیے دوسرے متبادل لفظ کی تلاش بھی نہیں کی۔

انہوں نے واضح کیا کہ وہ فلموں میں آئٹم سانگ شامل کرنے کے حق میں نہیں۔

میزبان اور اداکار نے یہ بھی کہا کہ وہ فلموں میں بہت زیادہ بولڈ رومانوی مناظر دکھانے کے حق میں بھی نہیں، جو کام گلے لگنے سے ہوسکتا ہے، اس کے لیے بوس و کنار دکھانا کیوں لازم ہے؟

انہوں نے تجویز پیش کی کہ ہیرو اور ہیروئن کے درمیان رومانس دکھاتے وقت پس منظر میں عاطف اسلم کا رومانوی گانا چلے اور دونوں کو ہاتھوں میں ہاتھ ملا کر دکھایا جانا چاہیے، بہت زیادہ بولڈ مناظر دکھانے کی ضرورت نہیں۔