گالیوں کو ترسا ہوا بابا!
میں نے بہت دِنوں سے کسی سے دکھ سکھ نہیں کیا تھا چنانچہ دل پر بہت بوجھ تھا سو میں
میں نے بہت دِنوں سے کسی سے دکھ سکھ نہیں کیا تھا چنانچہ دل پر بہت بوجھ تھا سو میں
ہم لوگوں نے ایک وقت تھا کہ پائیدار قدروں اورجاندار شخصیتوں کو یاد کرنے کیلئے سال میں ایک دن، ایک
میں کافی عرصے سے قاسم علی شاہ کی باتوں میں آ کر لوگوں کے بارے میں حسنِ ظن سے کام
میرے سامنے بے شمار ’’کھانے پینے‘‘ کی اشیا دھری تھیں، میرے پاس میرا پوتا ارسلان بیٹھا تھا، میں ابھی کھانے
ہم میں سے جو لوگ کرپٹ ہیں وہ ایماندار لوگوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے مطمئن چہروں پر نظر
کورے کاغذ کو گھورتے رہنا نہایت تکلیف دہ کام ہے۔ خاص طور پر جب لکھنے کو دل ہی نہ کر
ان دنوں سیاست کے حوالےسے شائع ہونے والی سچی اور جھوٹی خبروں نے ان معصوموں کو پریشان کردیا ہے، جو
براہِ کرم میرے اِس کالم کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔میں محض دل کی بھڑاس نکال رہا ہوں۔ اگر میرے اس
انٹرویوز میں ایک تعارفی جملہ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ ’’آج کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں
دبئی سے برادرم کاشف محمود کا فون آیا کہ آپ کچھ دن کے لئے دبئی آ جائیں،تبدیلی، آب وہواہو جائے