اعتبار اور منافقت
زندگی میں جب اعتبار کسی سے اٹھ جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے۔اعتبار کا اٹھنا اور اٹھ جانا کئی
زندگی میں جب اعتبار کسی سے اٹھ جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے۔اعتبار کا اٹھنا اور اٹھ جانا کئی
سہمی آنکھوں میں یہ کچھ خواب جواں رہنے دو گھر کی انگنائی میں پیروں کے نشاں رہنے دو تھک کے بیٹھی ہیں جو چوکھٹ پہ تمہاری سانسیں غم کے احساس چھپاؤ نہ، عیاں رہنے دو ظلم کا دریا ابھی سر سے گزر سکتا ہے ہاتھ میں پھر عَلمِ حق و اذاں رہنے دو آگ تو جائے گی بجھ میری چتا کی پھر بھی جل رہی آگ جو سینے میں، دھواں رہنے دو ان کے کردار سے ایسے نہ اٹھاؤ پردہ کر نہ دے ننگا فہیم ان کو نہاں رہنے دو
یہ کیسا عشق جس میں بے بسی ہے بھلا اس کے بنا بھی زندگی ہے سنے گا کون میں کس کو پکاروں دیارِ غیر ہے اور بیکسی ہے توقع ہے وفاداری کی ہے ان سے یقیں کامل ہے یا پھر خوش دلی ہے ہوئی موت ایسے کہ سہما ہے انساں عجب ہے بیقراری، بے حسی ہے ہے منزل دور اور راہیں اندھیری دیا جل جائے تو پھر روشنی ہے فہیم اب کیسے میں شمع جلاؤں مخالف ہے ہوا اور تیر گی ہے
ہم نے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے،ہمیں مرد اور عورت کپڑے میں ملبوس ہی اچھے اور تہذیب یافتہ لگے
یہ کیسا عشق جس میں بے بسی ہےبھلا اس کے بنا بھی زندگی ہے سنے گا کون میں کس کو
آئے دن لوگوں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ فلاں نے مجھے دھوکہ دے دیا۔ چاہے کاروبار ہو یا
اسلاموفوبیا انگریزی کا ایک ایسا لفظ ہے جو پچھلے کچھ برسوں سے پوری دنیا میں منفی طور پر سنا جارہا
بھیڑ میں تنہا رہتا ہوںآگ میں جلتا رہتا ہوں آس میں ہر دم ملنے کےخواب ہی دیکھتا رہتا ہوں بھینس
کبھی کہیں پر یاد بھی اس کی تھکتی ہے لاکھ مچلتا ہے دل سانس بھی تھمتی ہے چاند نہیں نکلا تو تم بھی بوجھل ہو یعنی چاندنی سے ہی شکل نکھرتی ہے کوئی طالبِ دید نہیں ہے لیکن وہ اسی تواتر سے ہر روز سنورتی ہے دیکھ کے اکثر اس کو غیر کی بانہوں میں اسے خبر کیا مجھ پر کیسی گزرتی ہے تجھ کو عشق فہیم نہیں لیکن اب بھی ایک حسینہ ہے جو تجھ پر مرتی ہے
بچپن اورجوانی کے درمیان ہیپی برتھ ڈے منانے کی نہ نوبت آئی اور نہ اماں اور ابا نے میری ہیپی