پاکستان

بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل کی بریت کی درخواست مسترد، فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

Share

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ اسلام آباد نے پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کو بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے کیس میں بری کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سنادیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کیے گئے شہباز گل کو 30 اگست کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا، انہیں 9 اگست کو اسلام آباد سے حراست میں لیا گیا تھا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ اسلام آباد میں شہباز گل کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے کیس کی سماعت ہوئی، ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے سماعت کی، دوران سماعت شہباز گل اور عماد یوسف عدالت میں پیش ہوئے۔

شہباز گل کے وکیل شہریار طارق نے بریت کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ درخواست 265 ڈی کے تحت دائر کی گئی ہے، ایف آئی آر میں دفعہ 124 اے لگائی گئی جس کیلئے وفاقی حکومت کی اجازت لازمی ہے، ایف آئی آر 9 تاریخ کو درج ہوئی، 124 اے کی دفعہ لگانے کے لیے وفاقی حکومت کی اجازت 10 تاریخ کو ملی، ایف آئی آر پہلے درج کی گئی، 124 اے کی دفعہ لگانے کی اجازت بعد میں لی گئی۔

شہباز گل کے وکیل نے استدلال کیا کہ اگر 10 تاریخ کو اجازت ملی تو 9 تاریخ کو درج کی گئی ایف آئی آر غیر قانونی ہوگئی، جج نے استفسار کیا کہ اس کے لیے اجازت نامہ جاری ہونا ضروری ہے یا تھانے کو موصول ہونا ضروری ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ مقدمے میں جتنی ریکوری ہو رہی ہے وہ 9 تاریخ کی ہورہی ہے، تمام پروسیجر 9 تاریخ کو ہوچکا، حکومت سے اجازت 10 تاریخ کو ملی۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ یہ واحد کیس ہے جس میں شکایت کنندہ اپنی مرضی کی دفعات لکھ کر پولیس کو دیتا ہے، پولیس شکایت کنندہ کے خواہش کے مطابق دفعات شامل کر دیتی ہے، جج نے ریمارکس دیے کہ شکایت کنندہ مجسٹریٹ ہیں، ان کے پاس قانون کا علم تو ہے، وکیل نے کہا کہ بے شک مجسٹریٹ ہیں لیکن شکایت کنندہ بھی ہیں، پولیس کو اپنا مائنڈ اپلائی کرنا چاہیے تھا، شہباز گل کے خلاف جو ثبوت ملے ہیں وہ صرف 2 یو ایس بیز ہیں۔

انہوں نے استدلال کیا کہ ایک یو ایس بی ڈائریکٹر براڈکاسٹنگ کی طرف سے تفتیشی افسر کو دی گئی، دوسری شکایت کنندہ کی جانب سے، یو ایس بیز کے حوالے سے دیکھنا ہے کہ ماڈرن ڈیوائسز سے متعلق قانون شہادت کیا کہتا ہے، اس عدالت میں جو یو ایس بی آئی وہ سیل نہیں تھی، غیر سیل شدہ دستاویزی ثبوت کی کیا قانونی حیثیت ہوگی؟ یو ایس بی کس نے لی، کس نے بھیجی، کون سی بھیجی؟ کیا اس پر سیریل نمبر، ٹائم کیا کچھ اور لکھا ہوا ہے؟

وکیل نے مؤقف اپنایا کہ یو ایس بی توشیبا کی بھیجی، آپ کے پاس ایچ پی کی آگئی، سپریم کورٹ نے عدالت میں قابل تسلیم شواہد کے حوالے سے رولز واضح کیے ہیں، سپریم کورٹ کے رولز کے مطابق جس نے آڈیو یا وڈیو ریکارڈنگ کی وہ شخص بھی موجود ہونا چاہیے، اس کیس میں یو ایس بی بھیجنے والا ایس ایس پی آپریشن ہے اور وصول کرنے والا تفتیشی افسر، ایس ایس پی آپریشن کون ہوتا ہے وڈیو، آڈیو ریکارڈنگ کی یو ایس بی بھیجنے والا؟

وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر کو ریکارڈنگ کا مخصوص حصہ کاٹ کر بھیجا گیا، قانون کے مطابق انہوں نے لکھنا ہے کہ شواہد کس نے اکٹھے کیے، کس کو دیئے، کس نے لیے، کہاں رکھے، سب کچھ، جہاں یہ چین ٹوٹے گی، وہاں بریت کی درخواست پر ملزم کو بری کردیا جاتا ہے، انہوں نے ریکارڈ میں توشیبا کی یو ایس بی لکھی ہے، لیکن کہاں ہے توشیبا کی یو ایس بی؟

جج نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنا یہ ہے کہ فرد جرم عائد کرنے کے وقت بھی ہم نے شواہد کو اسی پیمانے پر دیکھنا ہے؟ اگر فرد جرم کے وقت ہی شواہد کا اسی پیمانے پر جائزہ لینا ہے تو ٹرائل چلانے کا کیا فائدہ؟ وکیل نے کہا کہ میں کہہ رہا ہوں کہ چین اگر ٹوٹتی ہے تو 265 ڈی اپلائی ہوتا ہے، سپریم کورٹ کے ایک مقدمے میں ایف آئی آر ابھی درج نہیں ہوئی تھی تو عدالت نے ملزم کو شواہد کی چین ٹوٹنے پر بری کردیا تھا۔

وکیل نے کہا کہ اگر یو ایس بی ہی قابل تسلیم ثبوت نہیں ہے تو اس کی بنیاد پر چارج کیسے فریم ہوسکتا ہے؟ انہوں نے کچھ ٹویٹس کی فوٹو کاپیاں بھی شواہد میں لگائی ہیں، قانون اور عدالتی فیصلوں کے مطابق فوٹو کاپی عدالت میں قابل تسلیم شواہد نہیں ہے، شہباز گل کیخلاف کوئی کیس بنتا ہی نہیں ہے، درخواست ہے کہ 265 ڈی کی شہباز گل کی بریت کی درخواست منظور کی جائے۔

اس دوران شہباز گل کے دوسرے وکیل برہان غیر حاضر رہے جس پر جج نے ریمارکس دیے کہ برہان صاحب کو میں نے کہا تھا کہ اگر آپ نے نہیں آنا ہو تو تحریری دلائل جمع کرا دیں، نہ تو وہ خود آئے، نہ ہی ان کے تحریری دلائل، عدالت نے استفسار کیا کہ جو ٹرانسکرپٹ دیا گیا ہے، جو شہباز گل نے انٹرویو میں کہا، کیا شہباز گل اس سے انکاری ہیں؟ وکیل نے کہا کہ یہ کریمنل کیس ہے، استغاثہ کو یہ کیس ثابت کرنا ہے۔

جج نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ اس یو ایس بھی میں رد و بدل کی گئی ہے؟ شواہد کی چین ٹوٹ گئی ہے، ہمارا یہ موقف ہے، ان کا کہنا ہے کہ آڈیو اور وڈیو کے اندر سارا کچھ ہے، اب وہ وڈیو اور آڈیو عدالت میں قابل تسلیم شواہد ہوں تو آگے بات چلے گی۔

اس موقع پر شہباز گل کے ایک وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ آپ تاریخ دے دیں، شہباز گل کے دوسرے وکیل دلائل دیں گے، عدالت نے کہا کہ ان کو میں نے کہا تھا لیکن نہ وہ پیش ہوئے، نہ دلائل دیے، آپ سادگی دیکھیں، بریت کی درخواست پر دلائل دے کر تاریخ مانگ رہے ہیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ مجھے عدالتی فیصلوں کے حوالے بھجوائیں، اس کا جائزہ لوں گا، میں 3 بجے تک دوبارہ کیس کال کروں گا۔

بعد ازاں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ اسلام آباد نے شہباز گل کی بریت کی درخواست مسترد کردی، ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سپرا نے فیصلہ سنایا جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ سماعت 27 فروری کو ملزم پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔

شہباز گل کا متنازع بیان

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لیا تھا۔

اس سے قبل پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ’اے آر وائی‘ نیوز کو اپنے شو میں شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ’مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا‘۔

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے‘۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ’اسٹریٹجک میڈیا سیل‘ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

شہباز گل نے کہا تھا کہ جاوید لطیف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت دیگر حکومتی رہنماؤں نے ماضی میں فوج پر تنقید کی تھی اور اب وہ حکومتی عہدوں پر ہیں۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔