منتخب تحریریں

’’اندیشہ ہائے دُور دراز‘‘

Share

معاملات کو ’’اصولوں‘‘ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ٹھوس سیاسی تناظر میں جانچنے کی عادت اپنا رکھی ہے۔اس کی وجہ سے فکر لاحق ہے کہ حکومت اور چیف جسٹس سپریم کورٹ کے مابین دن بدن بڑھتی الجھنیں اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی فضا میں خلفشار کو مزید بھڑکائیں گی۔عاشقان عمران مصر رہیں گے کہ ’’بیرونی سازش‘‘ کی بدولت قائم ہوئی ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ پنجاب اسمبلی کے انتخابات ٹالنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کررہی ہے۔اسے یہ خوف لاحق ہے کہ بروقت انتخابات تحریک انصاف کو بھاری بھر کم اکثریت سے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کی ایک بار پھر حکمران جماعت بنادیں گے۔ ’’تازہ مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ قائم ہوئی حکومت اقتدار سنبھالتے ہی پولیس اور مقامی انتظامیہ کے ان افسروں کا ’’محاسبہ‘‘ کرے گی جو تحریک انصاف کے متوالوں کے خلاف مبینہ طورپر فسطائی رویے اختیار کئے ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کے بھرپور تعاون سے عمران خان اسلام آباد پر ایک اور یلغار کے ذریعے شہباز حکومت کو استعفیٰ دینے کو مجبور بھی کرسکتے ہیں۔

مذکورہ بالا امکانات کو تاہم عاشقان عمران زیر بحث لانا نہیں چاہیں گے۔فقط آئین کے ’’تحفظ‘‘ کا ذکر ہوگا جوکسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد ’’نوئے دنوں کے اندر‘‘ نئے انتخابات کا تقاضہ کرتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال صاحب مذکورہ تقاضہ پر عملدرآمد کو بضد ہیں۔ حکومت ان کے ’’ازخوداختیارات‘‘ کو لگام ڈالنے کی ’’ضد‘‘ میں مبتلا نظر آرہی ہے۔

’’از خود اختیارات‘‘ کا وسیع تر تناظر میں رکھ کر جائزہ لینا بتدریج ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے بابت متوازی رائے رکھنے والے اپنے اپنے مؤقف ہی کو ’’اصولی‘‘ ثابت کرتے رہیں گے۔اندھی نفرت وعقیدت کی وجہ سے بلند سے بلند تر ہوتے شور میں ہم یہ حقیقت فراموش کرچکے ہیں کہ گزشتہ برس کے اپریل میں عمران حکومت نے بھی اپنے خلاف آئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی ٹالنے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا تھا۔موجودہ چیف جسٹس صاحب ہی نے جب اس کی بابت ’’ازخود نوٹس‘‘ لیا تو تحریک انصاف کی مذمت کی زد میں آئے ۔مذکورہ تحریک عدم اعتماد کو ’’قومی سلامتی‘‘ کے بہانے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا سپریم کورٹ نے بالآخر ’’غیر آئینی‘‘ ٹھہرایا تھا۔ ان دنوں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری اس حوالے سے ’’آئین شکن‘‘ شمار ہوسکتے تھے۔ انہیں مگر اپنے عمل کا عدالتی کٹہرے میں جواب دینا ہی نہیں پڑا۔

پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مختلف حیلوں سے ٹالنے کی کوششیں اب کی بار موجودہ حکومت کو ’’آئین شکن‘‘ دکھاسکتی ہیں۔اسے درگزر کرنے کا ارادہ تاہم نظر نہیں آرہا۔’’توہین عدالت‘‘ کی تلوار نیام سے باہر آئی محسوس ہورہی ہے۔ ’’خم کاکل‘‘ نے مجھے ہمیشہ اندیشہ ہائے دوردراز کی اذیت میں مبتلا رکھا ہے۔ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ پنجاب اسمبلی کے حوالے سے چیف جسٹس صاحب کے حکم کی ممکنہ ’’عدم عدولی‘‘ کا خمیازہ فقط وزیر اعظم شہباز شریف ہی کو بھگتنا ہوگا یا…

اس سوال پر غور کا آغاز کرتے ہی ذہن میں آیا کہ سپریم کورٹ یہ بھی طے کرچکا ہے کہ وزیر اعظم اپنے لئے فیصلوں کا تنہا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ اس کا آیا ہر فیصلہ درحقیقت وفاقی کابینہ کی ’’اجتماعی سوچ‘‘ کا مظہر ہے۔ ’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ کے تصور کو ذہن میں رکھوں تو’’توہین عدالت‘‘ کا ممکنہ ارتکاب محض شہباز شریف ہی کو قابل تعزیر نہیں ٹھہرائے گا۔نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ (نون) کے سربراہ کے علاوہ اس جماعت کے 1990کی دہائی سے سرکردہ خواجہ آصف، سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ جیسے رہ نما بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال قائد بلاول بھٹو زرداری بھی وزیر خارجہ ہوتے ہوئے ’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ سے لاتعلق ہو نہیں سکتے۔اس جماعت کے نوید قمر اور شیری رحمان جیسے دیرینہ رہ نمائوں کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہوگا۔ جے یو آئی کے مولانا اسعد الرحمن جو مولانا فضل الرحمن کے فرزند اور سیاسی جانشین بھی ہیں ’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ سے جند نہیں چھڑاپائیں گے۔’’اجتماعی ذمہ داری‘‘ کا اصول اگر واقعتا بروئے کار لایا گیا تو آئندہ انتخابات کے لئے محض شہباز شریف یا مسلم لیگ (نون) ہی کے سرکردہ رہ نما نہیں بلکہ ’’اتحادی جماعتوں‘‘ کے نمایاں رہ نمائوں کا ہجوم بھی ’’نااہلی‘ ‘ سے بچ نہیں پائے گا۔انتخابی میدان میں یوں عمران خان اور ان کے نامزد کردہ میدوارصاحبان کی مانگی دعا کے مطابق ’’سنجی گلیوں‘‘ میں مرزا کی طرح دندنائیں گے۔ ممکنہ نااہلیوں کے انبار سے مفلوج ہوئی جماعتیں آئندہ انتخاب بھرپور انداز میں لڑنے کی سکت سے محروم ہوجائیں گی۔ نااہلیوں کے انبار سے خوفزدہ ہوئی جماعتیں مشتعل ہوکر آئندہ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کرسکتی تھیں۔1985کے ’’غیر جماعتی انتخابات‘‘ کی بابت ان دنوں کی ایم آر ڈی میں شامل جماعتوں نے بھی ’’بائیکاٹ‘‘ کو ترجیح دی تھی۔ اس کے منفی نتائج کو مگر آج تک بھگت رہی ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کو لہٰذا مجبور محسوس کریں گی۔ ووٹروں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے وہ ممکنہ طورپر ’’یک جما عتی نظام‘‘ کی راہ روکنے والا بیانیہ تیار کریں گی۔ وہ ’’چورن‘‘ بکے گا یا نہیں اس کا جواب ڈھونڈنا فی الوقت میرے لئے ممکن نہیں۔

نااہلیوں کے انبار کے بعد ہوئے آئندہ انتخابات تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ وفاقی حکومت میں واپس لوٹنے کے امکان کو توانا تر بناسکتے ہیں۔’’تازہ مینڈیٹ‘‘ کی بدولت میسر ہوئی قوت کو عمران خان وزیر اعظم کے دفتر لوٹ کر بھرپور انداز میں استعمال کریں گے۔ ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ کے ریاستی اداروں میں موجود ’’مبینہ سہولت کاروں‘‘ کو بھی اپنے اعمال کا حساب دینے کو مجبور کرسکتے ہیں۔ خلفشار تھمنے کے بجائے یوںگھمبیر تر ہوسکتا ہے۔

اندیشہ ہائے دور دراز کی اذیت سے آزاد اور خوش نصیب اذہان مگر ان امکانات کی جانب توجہ ہی نہیں دے رہے جو میرے وسوسے بھرے دل ودماغ میں آئے ہیں۔اپنے ذہن میں آئے اندیشوں سے نجات کے لئے روایتی کے بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ دینے کا ارادہ باندھا ہے۔ چند کتابیں بھی الماری سے نکال کر بستر کے سرہانے رکھ لی ہیں۔امید ہے ان کا مطالعہ مجھے ملکی سیاست کی ’’رونق‘‘ سے غافل بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔