ہیڈلائن

اسرائیل کا غزہ کے شہریوں کو بلا جواز نشانہ بنانا عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے، نگران وزیراعظم

Share

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے غزہ میں فوری جنگ بندی کرنے اور ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیل کے مظالم کو عالمی قوانین کی صریحاَ خلاف ورزی قرار دے دیا۔

وزیراعظم آفس کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے جاری ایک بیان کے مطابق انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کو غزہ میں جاری تشدد اور جانی نقصان پر گہری تشویش ہے، ہم فلسطین کے مظلوم عوام سے یکجہتی کے لیے ساتھ کھڑے ہیں اور غزہ میں فوری جنگ بندی کرنے اور ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل کا غزہ میں شہریوں کو بلا جواز نشانہ بنانا تہذیب کے تمام اصولوں کے خلاف اور عالمی قوانین کی صریحاَ خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تشدد کے خاتمے کو فلسطینی سرزمین پر برسوں کے غاصبانہ اور غیر قانونی قبضے اور اس کے عوام کے خلاف جابرانہ پالیسیوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو محصور غزہ تک فوری طور پر درکار امدادی سامان کی نقل و حمل کے لیے محفوظ اور غیر محدود انسانی راہداری کھولنے کے لیے کارروائی کرنی چاہیے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان غزہ کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پر او آئی سی اور اس کے رکن ممالک کے ساتھ قریبی رابطہ میں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی 18 اکتوبر کو او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کریں گے اور غزہ کے لوگوں کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیں گے۔

اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے ایک غیرمعمولی حملے کے جواب میں 23 لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ تک خوراک اور ایندھن کو پہنچنے سے روکنے کے لیے علاقے کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، اسرائیلی حکام کے مطابق اان چھڑپوں کت دوران اب تک 1300 اسرائیلی ہلاک ہوچکے ہیں۔

اسرائیل نے اپنی تاریخ کے مہلک ترین راکٹ حملے کا سامنا کرنے کے بعد غزہ کی پٹی پر مسلسل بمباری شروع کردی اور تقریباً 2 ہزار 670 افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

اسرائیل زمینی حملے کیلئے تیار، غزہ کی 10 لاکھ آبادی کا انخلا

غزہ میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگ افراتفری اور مایوسی کی صورتحال میں اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں، اسرائیل نے حماس کے زیر اقتدار اِس علاقے پر بمباری کی اور ایک مکمل زمینی حملے کی تیاری کے لیے آج بھی فوجیوں کو جمع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

غزہ کی پٹی کے جنوب میں منتقل ہونے کے اسرائیلی حکم کے بعد لوگ اپنے گھروں سے بھاگ کر سڑکوں پر اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکولوں میں پناہ لینے کے لیے نکل آئے ہیں۔

فلسطینیوں کے لیے جو ممکن ہو سکے، تھیلوں اور سوٹ کیس، یا موٹر سائیکلوں، ٹوٹی پھوٹی کاروں، وین اور حتیٰ کہ گدھا گاڑیوں میں بھی لاد کر لے جارہے ہیں جوکہ اب ان کے لیے ایک عام سی بات بن چکی ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ’سی بی ایس نیوز‘ کے پروگرام ’60 منٹس‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حملہ کرنے اور ’شدت پسندوں‘ نکال باہر کرنا ضرروی ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے غزہ پر قبضہ کرنے کا کوئی بھی اقدام ’بڑی غلطی‘ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ حماس کا خاتمہ ضروری ہے لیکن فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ موجود ہونا چاہیے۔

’غزہ پر حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا‘

اسرائیل نے غزہ کے باہر فوجوں کو جمع کرلیا ہے، اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ یہ زمینی، فضائی اور سمندری حملہ ہوگا اور ایک ’اہم زمینی آپریشن‘ بھی کیا جائے گا۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے ترجمان جوناتھن کونریکس نے کہا کہ ہم غزہ شہر میں شدید اور مؤثر فوجی کارروائیوں کے آغاز پر ہیں، شہریوں کے لیے وہاں رہنا غیر محفوظ ہوگا۔

ایران اور لبنان کی حزب اللہ تحریک نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ میں اپنے فوجی بھیجتا ہے تو صورت حال پر قابو پانے اور تنازع نہ بڑھنے کی ضمانت کوئی بھی نہیں دے سکتا۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن خطے کی غیر مستحکم صورتحال کے پیشِ نظر بحران کو ٹالنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ہنگامی دورے کے بعد آج اسرائیل میں مذاکرات کرنے والے ہیں۔

اسرائیل حماس کے اِس حملے کا بدلہ لینے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ عرب لیگ اور افریقی یونین نے خبردار کیا ہے کہ غزہ پر حملہ ’نسل کشی‘ کا باعث بن سکتا ہے۔

صورتحال کے پیشِ نظر اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیریس نے خبردار کیا ہے کہ پورا خطہ تباہی کے دہانے پر ہے۔

کشیدگی بڑھنے کا خطرہ

اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ اسرائیل کو شمال میں جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ہم کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتے۔

امریکا نے اسرائیل کی واضح حمایت کا اعلان کیا ہے اور 2 طیارہ بردار بحری جہاز مشرقی بحیرہ روم میں بھیجا ہے۔

ایران کی جانب سے حماس کے حملے کی تعریف کرنے کے بعد وائٹ ہاؤس نے حملے میں ایران کے براہ راست ملوث ہونے کے خدشے کا اظہار کیا ہے، تاہم ایران کا اصرار ہے کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں تھا۔

’60 منٹس‘ انٹرویو میں جوبائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا امریکی فوج اس جنگ کا حصہ بن سکتی ہے؟ جواب میں جوبائیڈن نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس بہترین جنگجو قوتوں میں سے ایک موجود ہے، میں ضمانت دیتا ہوں کہ ہم انہیں ہر وہ چیز فراہم کریں گے جس کی انہیں ضرورت ہے۔

امریکا نے چین سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ کشیدگی کم کرنے کے لیے خطے میں اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔

گزشتہ روز چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ اسرائیل کا ردعمل اپنے دفاع کے دائرہ کار سے باہر ہو چکا ہے، وہ غزہ کے لوگوں کو اجتماعی سزا دینا بند کرے۔