منتخب تحریریں

آصف علی زرداری کا کلیدی پیغام

Share

ٹی وی شو کی میزبانی یا کالم نویسی کی چھابڑی لگاکرمجھ جیسے روز کی روٹی روز کمانے والے چسکے دار موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں۔آصف علی زرداری کا شکریہ۔جمعرات کی شام جیو ٹی وی کے مقبول ترین اینکر حامد میر سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر پاکستان نے یہ پیغام دیا کہ ان کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لئے ابھی مزید ”ٹریننگ“ درکار ہے۔ ”بابوں“ کو برا بھلا کہنے کے بجائے لہٰذا وہ اپنے وقت کا انتظار کریں۔
آصف علی زرداری کے ساتھ عرصہ ہوا تنہائی میں تو کیا ٹیلی فون پر بھی بات نہیں ہوئی ہے۔ جن دنوں میں رپورٹنگ میں ضرورت سے زیادہ متحرک ہوا کرتا تھا تو کبھی کبھار وہ بات چیت کے لئے یاد کرلیا کرتے تھے۔ان دنوں وہ خود کو محض چند اہم افراد سے ملاقاتوں تک محدود کرچکے ہیں اور میں نے بھی ”خبر“ ڈھونڈنا چھوڑرکھا ہے۔ہم دونوں کی ملاقات یا گفتگو کا کوئی سبب باقی نہیں رہا۔ماضی کے تجربات کی بدولت اگرچہ جس آصف علی زرداری کو میں جانتا ہوں وہ عموماََ ٹی وی انٹرویوز سے گریز کرتے ہیں۔فقط اس وقت حامد میر جیسے تجربہ کار صحافی کے ساتھ گفتگو کو آمادہ ہوتے ہیں جب انہیں سیاسی اعتبار سے وسیع تر حلقوں تک کوئی اہم پیغام پہنچانا ہوتا ہے۔ 
جمعرات کی شام دو گھنٹوں تک پھیلے انٹرویو کا میری دانست میں کلیدی پیغام یہ تھا کہ پیپلز پارٹی 2024ءکے انتخابات کی بدولت کسی بھی سیاسی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے نہیں دیکھ رہی۔اسے یقین ہے کہ بالآخر مختلف جماعتوں کو باہم مل کر مخلوط حکومت تشکیل دینا ہوگی۔ممکنہ حکومت کی قیادت شاید نواز شریف کو بھی نہ مل پائے۔ ”کون بنے گا وزیراعظم؟“ والے سوال کو لہٰذا نظرانداز کردیا جائے۔
پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے سادہ اکثریت کے امکان کو رد کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے اپنے مخصوص انداز میں اس امکان کی بھی نشاندہی کردی ہے کہ 2024ء کے انتخابی نتائج گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے سیاسی منظرنامے پر چھائے ”بابوں“ کو مجبور کردیں گے کہ وہ ”کچھ دو اور کچھ لو“ کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں۔بالآخر جو حکومت قائم ہوگی وہ ”اسی تنخواہ“ پر کام کرنے کو مجبور ہوگی جو ہماری ریاست کے دائمی اداروں نے منتخب سیاسی قیادت کے لئے 2010ءکے بعد سے بتدریج طے کرنا شروع کردی تھی۔مذکورہ پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کسی اور کے نہیں بلکہ اپنے ہی فرزند کے پرواز کو بے چین پروں کو بھی کاٹنے کی کوشش کی ہے۔”حصہ بقدرجثہ“ پر اکتفا کا حقیقت پسندرویہ اپنایا ہے۔
اپنی اور وطن عزیز کے دیگر سیاستدانوں کی ”اوقات“ مسکراتے چہرے کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے جو گفتگو کی اس نے روز کی روٹی روزی کمانے والے اینکروں اور کالم نگاروں کے لئے رونق لگادی۔ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں ادا کردہ ان کے چند ”پدرانہ“خیالات کو اچھالتے ہوئے تاثر یہ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ آصف علی زرداری دورِ حاضر کے ”شہاہ جہان“ ہیں۔ان کے فرزند غالباََ ان سے پیپلز پارٹی کی کمان چھین کر ”اورنگزیب“ کی طرح سینہ پھلاکر میدان میں اترچکے ہیں۔ باپ بیٹے میں ڈرامائی کش مکش کی توقع باندھنے والے اس حقیقت سے آشنا نہیں کہ آصف علی زرداری کسی بھی صورت جاگیردارانہ روایت والے ”والد“ نہیں ہیں۔ وہ اپنی اولاد سمیت نئی نسل کے لوگوں کے خیالات نہایت توجہ سے سنتے ہیں۔اپنے تینوں بچوں کو انہوں نے قابل رشک خودمختاری فراہم کررکھی ہے۔بلاول بھٹو زرداری کو مگر عملی سیاست کے تقاضوں کی بنا پر اکثر ”چیک“ کرنے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کا اکلوتا فرزند ”آتش نمرود“ میں بے خطر چھلانگ لگاکرایسے انجام سے دوچار ہوجو محترمہ بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کا مقدر ہوا تھا۔
ہم چسکہ فروشوں کو ”دیہاڑی لگانے“ میں مدد دینے کے لئے بلاول بھٹو زرداری نے بھی ایک چال چلی۔ ان کے والد کا انٹرویو ٹی وی پر چل گیا تو ٹویٹر جواب ”ایکس“کہلاتا ہے پر لگائی اپنی تصویر بدل دی۔ نئی تصویر میں وہ اپنی والدہ کی شفقت بھری نگاہوں تلے مسکرارہے تھے۔اپنے ٹویٹر اکا?نٹ پر نئی تصویر لگاتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے پیغام یہ دیا کہ وہ آصف علی زرداری ہی نہیں بے نظیر بھٹو کے فرزند اور سیاسی وارث بھی ہیں۔ ”مشتری“ لہٰذا ہوشیار رہے۔
یہ تصویر لگانے کے بعد وہ ”اچانک“دوبئی روانہ ہوئے نظر آئے۔ان کی پرواز کے چند ہی لمحوں بعد خبر آئی کہ آصف علی زرداری بھی اسی شہر جارہے ہیں۔تاثر اس کی بدولت یہ ابھرا کہ ”بیٹا“ خفا ہوکر چلاگیا اور پدرانہ شفقت اس کو منانے پیچھاکرنے کو مجبور ہوگئی۔ہفتے کی شام بالآخر بختاور بھٹو زرداری نے سوشل میڈیا پر ایک تصویرلگادی۔یہ تصویر آصفہ زرداری نے کھینچی تھی۔ اس میں بلاول بھٹو زرداری مسکراتے ہوئے اپنے والد کے دائیں ہاتھ کھڑے ہیں۔ انگریزی محاورے والی ”ہیپی گڈ فیملی(Happy Good Family)“‘ ۔چائے کی پیالی میں اٹھائے طوفان یہ تصویر پبلک ہوجانے کے بعد تھم جائیں گے۔ٹی وی شو کی میزبانی یا کالم نویس کی چھابڑی کے ذریعے مجھ جیسے روز کی روٹی کمانے والوں کو بیچنے کے لئے اب کوئی نیا سودا درکار ہوگا۔
سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ لائیکس اور شیئرز کی ہوس نے تیزی سے معدوم ہوتی ”صحافت“ کو بنیادی سوالات اٹھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ کسی بھی ملک میں عام انتخاب کا انعقاد اہم ترین واقعہ ہوتا ہے۔اس میں حصہ لیتے ہوئے سیاسی جماعتیں محض اپنی جداگانہ شناخت ہی اجاگر نہیں کرتیں۔ اپنی شناخت کو بلکہ چند ٹھوس نظریات یا خیالات کی بدولت دوسروں سے جدا دکھانے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ہمارے ہاں مگر2008ءکے برس سے ”جمہوریت“ کی جو شکل نمودار ہونا شروع ہوئی وہ بالآخر ”آدھا تیتر آدھا بٹیر“ والی صورت حال سے دو چار ہوچکی ہے۔
عوام کو درپیش مسائل کے حل ڈھونڈنا سیاست دانوں کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان کے ذہن میں اس تناظر میں جو ”نسخے “ آئیں انہیں وہ انتخابی مہم کے دوران عوام کے روبرو رکھتے ہیں۔ عوام کی اکثریت اگر ان کی سوچ کی حمایت کردے تو اقتدار کی بدولت ان نسخوں کا اطلاق ممکن ہوجاتا ہے۔ 
ہماری ”شفا“ کے نسخے مگر اب مقتدر کہلاتی قوتیں دریافت کرنا شروع ہوچکی ہیں۔ ان میں سے چند ایک کا استعمال نگران حکومت کے ہاتھوں شروع بھی ہوچکا ہے۔مجھے گماں ہے کہ فی الوقت سیاسی جماعتوں کے مابین“ اصل مقابلہ“ یہ ہورہا ہے کہ وہ مذکورہ نسخوں کا استعمال جاری رکھیں گی یا نہیں۔مسلم لیگ (نواز) اس کے لئے رضا مند ہے۔بلاول بھٹو زرداری ”لیول پلینگ فیلڈ“کی دہائی مچاتے ہوئے تھوڑی ”خودمختاری“ اختیار کرنے کو مچل رہے تھے۔ جمعرات کی شام دئے ایک طویل انٹرویو کے ذریعے لیکن آصف علی زرداری نے ان کے پرواز کو بے چین پر کاٹ دئے ہیں۔اب ”ہم ہوئے ،تم ہوئے کہ میر“ ہوئے والا معاملہ ہے جو انتخابی عمل کو انتہائی بورنگ بنادے گا۔