بارے ’بیہودہ مردوں ‘ کا کچھ بیاں ہوجائے
دو آدم خور باپ بیٹا جنگل میں شکار تلاش کر رہے تھے تاکہ اپنے کھانے کا بندوبست کر سکیں۔ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد انہیں ایک بوڑھا آدمی نظر آیا جسے باآسانی ذبح کر کے کھایا جا سکتا تھا۔ بیٹے نے اسے دیکھ کر کہا، ’یہ ٹھیک ہے، اسے لے چلتے ہیں‘۔ باپ نے جواب دیا، ’نہیں، اِس میں سے تو اتنا کم گوشت نکلے گا کہ ہمارے کتے بھی سیر نہ ہوسکیں گے، ابھی مزید دیکھو۔‘ کچھ دیر بعد انہیں ایک تنومند آدمی دکھائی دیا۔ بیٹے نے کہا، ’ابا! اِس کے بارے میں کیا خیال ہے، یہ تو کافی تگڑا ہے!‘ باپ نے جواب دیا، ’نہیں، اِس میں چربی بھری ہے، اسے کھا لیا تو ہم سب دل کی بیماری سےہی مر جائیں گے۔ کوئی اور شکار تلاش کرو۔‘ ایک گھنٹےکی تگ و دو کے بعد انہیں ایک بے حد خوبصورت عورت نظر آئی۔ بیٹے نے کہا، ’ابا! اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، اسے کھا لیتے ہیں۔‘ باپ نےعورت کو غور سے دیکھا اور بولا، ’نہیں…ہم اسے بھی نہیں کھائیں گے۔‘
’کیوں، اب اِس کو کیا ہوا؟‘
’کچھ نہیں، ہم اسے زندہ اپنے ساتھ رکھیں گے اور تمہاری ماں کو کھائیں گے!‘
میں اِس سنگ دلانہ لطیفے کیلئے معذرت خواہ ہوں، مگر جو ’حقیقت‘ اِس لطیفے میں بیان کی گئی ہے وہ قابل غور ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لطیفہ مردوں کے اُس رویے کی مکمل عکاسی کرتا ہے جو وہ خواتین کی طرف روا رکھتے ہیں۔ یقینا ً ہم مردوں کی اکثریت اِس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرے گی لیکن سچ یہی ہے کہ زیادہ تر مرد خواتین کے بارے میں ایسے ہی ’’آدم خورانہ‘‘ قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔ گو کہ فیمنزم کے اِس جدید دور میں تصورات کافی تبدیل ہو گئے ہیں، خواتین مردوں سے زیادہ ہوشیار اور سمجھدار ہو گئی ہیں، میڈیا میں اُن کا ذکر اب روایتی انداز میں نہیں ہوتا، بہت سے قوانین بھی عورتوں کے تحفظ اور برابری کو یقینی بنانے کیلئے نافذ ہیں مگر اِن تمام باتوں کے باوجود عورتوں کو کچھ تجاویز دینا ضروری ہیں تا کہ وہ اچھے اور برے مردوں میں تمیز کر سکیں۔ ذیل میں کچھ مفت مشورے دئیے جا رہے ہیں جن پر عمل کر کے نہ صرف خواتین اِن آدم خور مردوں کی دسترس سے دور رہ سکیں گی بلکہ شریف قسم کے مرد بھی خود کو اِن مردوں کے شر سے بچا سکیں گے۔
سب سے پہلے ہمیشہ یاد رکھیں کہ تمام مرد باطنی طور پر بیہودہ ہوتےہیں اِلّا یہ کہ اُلٹ ثابت ہو جائیں، یہ بالکل نیب کے پرانے قانون کی طرح ہکہ ہر ملزم کرپٹ ہے جب تک ثابت نہ ہو کہ وہ نہیں ہے۔ لہٰذا مردوں کو مجبور کریں کہ وہ اچھے چال چلن کا سرٹیفکیٹ بنوائیں اور ثابت کریں کہ وہ ’آدم خور‘ نسل سے تعلق نہیں رکھتے۔ اگر خواتین مردوں سے معاملہ کرتے وقت یہ بنیادی مفروضہ ذہن میں رکھیں گی تو اِن شااللہ دنیا و آخرت دونوں میں بھلا ہو گا۔ نوٹ: یہ مشورہ خاص طور سے اُن مردوں کے متعلق ہے جو ویسے تو عورتوں کو دو ٹکے کا سمجھتے ہیں مگر حقیقت میں اُن کے پیچھے دُم ہلاتے پھرتے ہیں۔ دوسرا مشورہ، اگر کوئی مرد خود کو ضرورت سے زیادہ ’بیبا‘ ظاہر کرے تو اس سے بھی بچیں۔ ایسے مرد عام طور پر دوہری شخصیت کے مالک ہوتے ہیں، اِن مردوں کا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ عورت کا اعتماد جیتنے کیلئے اُس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں مگر وہی کام اگر گھر کی کوئی خاتون کہہ دے تو اُن کے چہرے پر بیزاری چھا جاتی ہے۔ بظاہر ایسے مردوں کے ساتھ باہر جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن مسئلہ اُس وقت شروع ہوتا ہے جب یہ مرد، عورت کو اپنا اصل روپ دکھاتے ہیں اور ایسا عموماً ایک مخصوص لمحے کے بعد ہوتا ہے۔ شریف اور نا خلف قسم کے مردوں میں فرق کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اچھے مرد عام طور پر نارمل انداز میں برتاؤ کرتے ہیں، یعنی نہ تو وہ زیادہ شائستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی غیر ضروری طور پر سخت مزاج، وہ دفتر یا کام کی جگہ پر خاتون کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کرتے اور اُن کے ساتھ ایسے ہی پیش آتے ہیں جیسے عام مردوں کے ساتھ۔ اس لئے بعض اوقات یہ اچھے مرد کسی کام نہیں آتے جبکہ ان کے برعکس ’مذموم مقاصد‘ کے حامل مرد وقتی طور پر عورت کے مددگار ہو سکتے ہیں مگر خیال رہے کہ یہ وقتی مفاد عورت کو مہنگا پڑ سکتا ہے ۔
مردوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو مذکورہ بالا اقسام سے بالکل مختلف ہے، یہ مرد اپنے تئیں عورتوں کو نظر انداز کرنے کی اداکاری کرتے ہیں، اِس قسم کے مردوں کا خیال ہوتا ہےکہ اُن کی شخصیت اِس قدر پُر کشش ہے کہ خواتین اُن کے سحر میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گی اور آخر کار اُن کے دام میں آ جائیں گی۔ یہ کافی خطرناک قسم ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خواتین کی طاقت اور کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں اور انہیں اپنے فائدے کیلئے آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس’لیڈی کِلر‘ کو سنبھالنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اِس کو اُسی طرح نظر انداز کریں جس طرح وہ آپ کو کر رہا ہے، اور صبر کریں، پھر قدرت کا تماشا دیکھیں۔ وہ زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کر پائے گا اور جب وہ بالکل مایوس ہو جائے گا اور اسے یقین ہو جائے گا کہ مطلوبہ خاتون اُس کی رتی بھر پروا نہیں کر رہی تو وہ خود ہی پیچھے دوڑا چلا آئے گا۔ اِس طریقے کو ہم ’لیڈی کِلر کا قتل‘ بھی کہہ سکتے ہیں، اور بقول اشتیاق احمد ’یہ تو کسی ناول کا نام ہو سکتا ہے۔‘ (نوٹ: یہ جملہ صرف اسّی کی دہائی والی جنریشن سمجھ سکتی ہے)۔ سب سے بری قسم کے مرد وہ ہیں جو پہلی ملاقات کے بعد ہی عورت کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’تم کہاں تھیں؟ تم نے میرا فون پہلے کیوں نہیں اٹھایا؟ کیا تم کسی کے ساتھ تھیں… کون …تمہارا ساتھی؟ تم نے اسے اتنے خوشگوار انداز میں ہیلو کیوں کہا، کیا وہ تمہارا دوست ہے؟ تم عبایا کیوں نہیں پہنتیں، حجاب تم پر اچھا لگے گا؟؟‘‘ یہ وہ سوالات ہیں جو ایسے مرد عموماً ابتدائی مرحلے میں ہی پوچھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان مردوں کے ساتھ معاملہ کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہےکہ فوراً انہیں شٹ اپ کال دے دی جائے!
اِن تمام مشوروں کے علاوہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ یہ دنیا اب صرف مردوں کی نہیں رہی بلکہ اب خواتین کی بھی کچھ نہ کچھ سنی جا رہی ہے۔ لہٰذا اگر آپ کو کوئی بیہودہ مرد ٹکر اجائے تو پریشان نہ ہوں، اس صورت میں، اوپر دیے گئے مشوروں کو نظر انداز کریں اور اس کے ساتھ وہی سلوک کریں جیسے چند سال پہلے ایک عراقی صحافی نے سابق امریکی صدر جارج بش کے ساتھ کیا تھا۔ بس خیال رہے کہ آپ کی سینڈل نوکدار ہو اور نشانہ، نہ چُوکے!