صحت

ماہرین صحت کا کانگو وائرس سے متاثرہ مریضوں کی دوسرے شہروں میں منتقلی پر اظہار تشویش

Share

کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال میں کانگو بخار کے حالیہ پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ اگر بلوچستان میں مریضوں کو بر وقت مناسب طبی امداد فراہم کی جاتی تو جانی نقصانات سے بچا جاسکتا تھا جبکہ صوبے میں طبی سہولیات کی فراہمی کی کمی کے باعث عوام اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اپنے پیاروں کو علاج کے لیے کراچی لانے پر مجبور ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق ماہرین نے حالیہ واقعات کے بعد ہسپتالوں میں انفیکشن کنٹرول سے متعلق طریقہ کار کو سختی سے نافذ کرنے اور مویشی پالنے میں احتیاطی تدابیر کو نافذ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

اکتوبر کے آخری ہفتے میں کوئٹہ کے سنڈیمن پروونشل ہسپتال میں کانگو کریمین ہیمرجک فیور (سی سی ایچ ایف) کے پھیلنے کے بعد 5 نومبر تک ایک درجن سے زائد مریضوں کو کراچی منتقل کیا گیا، ان مریضوں میں زیادہ تر شعبہ صحت میں کام کرنے والے افراد تھے۔

بلوچستان کے سرکاری حکام کے مطابق ایک زیر علاج مریض کے سی سی ایچ ایف مثبت ٹیسٹ کے بعد بخار کی وبا پھوٹی، بعد ازاں اس مریض کو کوئٹہ کے فاطمہ جناح ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

کراچی کے نجی ہسپتال میں داخل 16 میں سے اب تک 9 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں جب کہ ایک ڈاکٹر سمیت 3 مریض دم توڑ چکے ہیں۔

27 سالہ ڈاکٹر شکر اللہ کراچی منتقلی کے دوران دم توڑ گئے تھے، ذرائع نے بتایا کہ ان کے ایک ساتھی ڈاکٹر سرفراز کو بھی اپنے شدید بیمار ساتھی کی دیکھ بھال کے دوران انفیکشن ہوا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ تازہ ترین متاثرہ فرد جو کوئٹہ کے ہسپتال میں وارڈ بوائے تھا، 6 نومبر کو کراچی کے سندھ انفیکشئس ڈیزیز ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سینٹر (ایس آئی ڈی ایچ آر سی) میں پہنچنے کے فوری بعد دم توڑ گیا۔

ایس آئی ڈی ایچ آر سی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عبدالواحد راجپوت نے کہا کہ تشویشناک حالت میں مریضوں کو ایئر ایمبولینس فراہم کی جانی چاہیے اور سی سی ایچ ایف کے مریضوں کا علاج کوئٹہ میں ہی کیا جانا چاہیے، جب کہ ایسے مریضوں کی کسی دوسری جگہ منتقلی کے دوران اس کے ساتھ موجود اٹینڈنٹ کے انفیکشن سے متاثر ہونے بہت زیاد زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

انڈس ہسپتال میں متعدی امراض کے شعبہ کی سربراہ ڈاکٹر نسیم صلاح الدین نے اس بات پر زور دیا کہ سی سی ایچ ایف کے مریضوں کو فیملی کے ہمراہ اور مناسب ذاتی حفاظتی سامان کے بغیر منتقل کرنا خود بڑا خطرہ ہے جس کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ انفیکشن کے شکار مریضوں کو دوسرے شہر منتقل نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ انہیں ان کے اپنے شہروں میں مناسب تربیت اور ضروری سامان کی فراہمی کے ساتھ مکمل طبی امداد فراہم کی جانی چاہیے۔

پاکستان کی متعدی امراض کی سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والے ڈاکٹر رفیق خانانی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کانگو بخار کے 80 فیصد مریض بیماری کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے ہی بغیر صحت یاب ہو گئے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے ڈاکٹر عطال خان نے بتایا کہ کوئٹہ میں انتہائی نگہداشت کی سہولیات انتہائی محدود ہیں جبکہ کوئٹہ میں پبلک سیکٹر میں پانچ ہسپتال ہیں جب کہ صرف فاطمہ جناح ایک انتہائی نگہداشت کا یونٹ ہے۔