پاکستان

کم عمر ڈرائیور کے ہاتھوں چھ افراد کی ہلاکت: کیا ایسے بچوں اور ان کے والدین کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے؟

Share

پاکستان کے شہر لاہور میں سنیچر کی شب ایک ٹریفک حادثے میں دو کمسن بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے چھ افراد مارے گئے۔ پولیس کے مطابق ڈیفینس ہاوسنگ سکیم کے فیز سیون میں ایک تیز رفتار کار اس گاڑی سے ٹکرائی جس میں مرنے والے افراد سوار تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ تیز رفتار گاڑی کو چلانے والا ڈرائیور سکول میں آٹھویں جماعت کا بچہ ہے جس کی عمر 18 سال سے کم ہے۔ قانونی طور پر وہ گاڑی چلانے اور ڈرائیونگ لائسنس رکھنے کا اہل نہیں ہے۔

لاہور کے علاقے شاداب کالونی ہاوسنگ سوسائٹی فیروزپور روڈ کے رہائشی رفاقت علی نے پولیس کو بتایا کہ وہ خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ڈی ایچ اے فیز سیون میں اپنی بیٹی کے سسرال سے واپس آ رہے تھے جب حادثہ پیش آیا۔

وہ دو گاڑیوں میں سوار تھے۔ ان کے آگے والی ٹیوٹا کرولا گاڑی میں ان کا 27 سالہ بیٹا محمد حسنین اپنی اہلیہ، چار ماہ کے بیٹے، بہنوئی اور ان کی چار سالہ بیٹی اور اپنی والدہ سمیت سوار تھے۔

رفاقت علی نے پولیس کو بتایا کہ جب ان کی گاڑیاں میکڈونلڈز چوک کے قریب پہنچیں تو بائیں جانب سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار کار نے ان کے آگے والی گاڑی کو ٹکر ماری۔

’وہ گاڑی قلابازیاں کھاتی ہوئی دور گرین بیلٹ کے ساتھ جا کر رکی۔ ہم سب نے بھاگ کر اپنے خاندان کے لوگوں کو اس گاڑی میں سے باہر نکالا اور ہسپتال منتقل کیا تاہم ان تمام چھ افراد کی موت ہو گئی۔‘

تھانہ ڈیفینس سی پولیس نے رفاقت علی کی درخواست پر مقدمہ درج کر کے کم عمر ڈرائیور کو گرفتار کر لیا ہے جن کا تعلق لاہور کے علاقے عسکری الیون سے ہے۔ ابتدائی تفتیش کے دوران کم عمر ڈرائیور نے پولیس کو بتایا کہ وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔

پولیس نے ان کے خلاف مقدمے میں تین دفعات شامل کی ہیں جن میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 322، 279 اور 427 شامل ہیں۔

تعزیرات پاکستان قانون کے سیکشن 279 کے مطابق اگر کوئی شخص غفلت سے گاڑی چلاتے ہوئے انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالے یا کسی کو زخمی کرے اور نقصان پہنچائے تو اسے تین سال تک سزا دی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی سیکشن 322 قتل بہ سبب سے اور دیت سے متعلق ہے۔

تاہم ان کے خلاف مقدمے میں سیکشن 320 نہیں لگائی گئی جو غفلت سے گاڑی چلاتے ہوئے قتل خطا سے متعلق ہے جس کے سزا دیت کے علاوہ زیادہ سے زیادہ دس سال تک قید ہو سکتی ہے۔

لاہور ٹریفک پولیس نے پیر کے روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر گرفتار کیے گئے کم عمر ڈرائیور کی ایک ویڈیو شائع کی ہے جس میں وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ ڈرائیونگ کرنے کے اہل نہیں ہیں اور سکول میں آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں۔

’کیا آپ اس ویڈیو سے ڈرائیور کے لیے ہمدردی پیدا کرنا چاہتے ہیں؟‘

تاہم ایکس پر صارفین اس ویڈیو کے شائع کرنے پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ محمد محسن خان نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا ہمیں چھ اموات نظرانداز کر دینی چاہیں؟۔۔ کیا آپ ہمارے دلوں میں ان کے لیے کسی قسم کی ہمدردی ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں؟‘

محمد عدیل ایوب نامی ایک صارف نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’کیا اس ڈرائیور کو کم عمر ملزم ہونے پر مکمل طور پر بری کر دیا جائے گا یا اس کو انسانی جانیں لینے کی سزا ملے گی؟ ان کے والدین کو کیا سزا دی جا سکتی ہے؟‘

Tweet

اس ویڈیو میں ڈرائیور کو سکول کی ایک شرٹ پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ ویڈیو میں وہ بتا رہے ہیں کہ ان کے والدین نے انھیں گاڑی لے کر جانے سے منع کیا تھا تاہم انھوں نے ضد کی اور گاڑی لے گئے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے نکلے تھے۔ انھوں نے یہ اعتراف کیا کہ ان کی گاڑی کی رفتار تیز یعنی ایک سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تھی۔ تاہم اس بیان میں ساتھ ہی انھوں نے یہ کہا کہ ان کے سامنے اچانک سے ایک گاڑی آئی جس کی رفتار بہت کم تھی۔

’ہمارے دونوں طرف بیریئر تھے اس لیے ڈرائیور کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘

ان کے ویڈیو بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قانونی نقطوں کو سامنے رکھتے ہوئے بات کر رہے ہیں۔ جیسا کہ اس میں انھوں نے خود گاڑی چلانے کے ’ڈرائیور‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔

ساتھ ہی انھوں نے بتایا ہے کہ والدین نے ان کو منع کیا تھا لیکن وہ خود ضد کر کے گاڑی لے گئے۔ سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو پر تبصرہ کرنے والے بہت سے افراد یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی بااثر شخص کی اولاد لگتے ہیں اور یہ کہ ان کے والدین کو بھی سزا ملنی چاہیے۔

Tweet

کیا ڈرائیور کو کم عمر ہونے کی وجہ سے مکمل بری کیا جا سکتا ہے؟

علامتی تصویر
،تصویر کا کیپشنفائل فوٹو

وکیل اور قانونی ماہر میاں علی اشفاق نے بی بی سی سے بات کرے ہوئے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو جووینائل یا کم عمر ملزم سمجھتے ہوئے مکمل طور پر ہر الزام سے بری کر دیا جائے گا۔

’انھوں نے جرم کیا ہے اور اس کے نتیجے میں چھ انسانی جانیں گئی ہیں اس لیے ان کے خلاف کارروائی تو ہو گی جو قانون کے مطابق ہو گی۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ پہلے اس بات کا تعین کیا جائے گا کہ ان کی عمر کیا ہے اور کیا وہ کم عم ملزم کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔

یاد رہے کہ قتل کی صورت میں بھی کم عمر ملزم کو موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا ہے کہ یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ وہ جووینائل ہیں یا نہیں۔

’اگر وہ جووینائل ہوتے بھی ہیں تو ان کے خلاف عدالتی کارروائی ہو گی اور اگر وہ قصوروار ثابت ہو جاتے ہیں تو قانون کے مطابق ان کو سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘

کیا کم عمر ڈرائیور کے والدین کو بھی سزا ہو سکتی ہے؟

وکیل میاں علی اشفاق کہتے ہیں کہ اس بات کا انحصار پولیس کی تحقیقات اور ان حالات پر ہے جن میں حادثہ پیش آیا۔ ’پولیس کو تحقیقات میں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اس واقعے میں بالواسطہ ذمہ داری جسے قانون کی زبان میں وائکیریئس لائبیلٹی بھی کہا جاتا ہے اس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔‘

اس کی وضاحت کرتے ہوئے وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ اس میں کئی پہلووں کو دیکھنا ہو گا جیسا کہ وہ گاڑی کس کے نام پر رجسٹر تھی جس کی ٹکر کی وجہ سے انسانی جانیں گئیں۔

’اس کے ساتھ ساتھ پولیس کو تحقیقات میں یہ بات معلوم کرنا ہو گی کہ کیا جس شخص کے نام پر گاڑی رجسٹرڈ ہے وہ کم عمر بچے کا والد یا والدہ ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ یہ جانتے تھے کہ بچہ ڈرائیونگ لائسنسن نہ رکھنے کے باوجود گاڑی چلا رہا ہے۔ کیا انھوں نے اس کو گاڑی چلانا سکھایا ہے یا کسی اور نے۔‘

’بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین سو رہے ہیں اور بچہ چوری چھپے گاڑی لے کر نکل جاتا ہے تو ایسی صورت میں عدالت کو یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اس صورتحال میں وائکیریئس لائبیلٹی کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔‘

پولیس کی طرف سے شائع کی جانے والی کم عمر ڈرائیور کی ویڈیو میں وہ یہ بتا رہے ہیں کہ ’انھوں نے گاڑی دوستوں اور کزنز وغیرہ سے چلانا سیکھی‘ اور یہ کہ ’والدین کے منع کرنے کے باوجود وہ خود ضد کر کے گاڑی نکال کر لے گئے تھے۔‘

تاہم خیال رہے کہ عدالت میں پولیس کو دیے جانے والے ویڈیو بیان کی قانونی حیثیت زیادہ نہیں ہوتی۔ وکیل میاں علی اشفاق کے مطابق والدین پر بالواسطہ ذمہ داری عائد ہو سکتی ہے اور ان کے خلاف کارروائی بھی کی جا سکتی ہے اگر عدالت یہ کہہ دے کہ ان پر بالواسطہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

علامتی تصویر

کم عمر بچے ڈرائیونگ کیوں کرتے ہیں؟

پاکستان یا لاہور میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کوئی کم عمر ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے حادثے کا سبب بنا ہوا۔

لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کم عمر ڈرائیورز لاہور پولیس کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک پولیس 20 ہزار سے زیادہ کم عمر ڈرائیورز کے چالان کر چکی ہے۔

’ان میں زیادہ تر کاریں اور موٹر سائیکلیں وغیرہ شامل ہیں اور اس نوعیت کے جرائم زیادہ تر شہر کے پوش علاقوں سے سامنے آتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر واقعات میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم عمر ڈرائیورز وہ ہوتے ہیں جو شوقیہ گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔

’یہ ممکن نہیں کہ سکول آنے جانے والے بچوں کے لیے پرائیویٹ یا پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی نہ ہو۔ یہ زیادہ تر وہ بچے ہوتے ہیں جو شوق سے ڈرائیونگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے تو اس میں کوئی مجبوری کا عنصر بظاہر نہیں ہوتا۔‘

سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز نے بتایا کہ ٹریفک پولیس اس حوالے کم عمر ڈرائیورز کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی مہمات چلاتی رہتی ہے جو اس نوعیت کے جرائم کو روکنے کا ایک طریقہ ہے۔

انھوں نے بتایا کہ لاہور میں 70 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں ہیں جبکہ دوسری طرف ان کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ٹریفک پولیس کی نفری 30 ہزار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کم عمر اور بغیر لائسنسن کے ڈرائیونگ کرنے والوں کے خلاف سختی سے قانون کے نفاذ کے لیے مہمات چلا رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ لاہور کے جس علاقے میں یہ حادثہ پیش آیا وہ زیادہ گنجان آباد نہیں ہے اس لیے وہاں پولیس کی موجودگی بھی کم ہے۔ تاہم اس حادثے کے بعد پولیس کی اس علاقوں میں موجودگی کو بڑھانے کے لیے بھی لائحہ عمل تیار کر لیا گیا ہے۔