سردی نامہ اور ’’دُر فٹے منہ‘‘
سردیوں کے ذکر سے اپنے کالم کا آغاز کرنے لگا ہوں اور اگر آپ مجھ سے امید کرتے ہیں کہ
سردیوں کے ذکر سے اپنے کالم کا آغاز کرنے لگا ہوں اور اگر آپ مجھ سے امید کرتے ہیں کہ
پیر کے روز پشاور کی ایک مسجد میں جو اندوہناک واقعہ ہوا وہ کئی بنیادی سوال اٹھانے کا متقاضی تھا۔سوالات
ابھی سڑکوں پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں،ابھی شاہراہوں پر روشنیاں جگمگا رہی ہیں ،ابھی ہمارے ریستوران آباد ہیں ، شہروں
کچھ روز ہوئے، آپ کے نیاز مند نے عرض کی تھی کہ اس نے جوانی میں پاکستان کیوں نہیں چھوڑا
گزشتہ تین دنوں سے ایک موضوع مجھے شدید پریشان کئے ہوئے ہے۔ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا نے اسے سنجیدگی سے
اس کالم کے باقاعدہ قاری جانتے ہیں کہ رواں برس کا آغاز ہوتے ہی میں دہائی مچانا شروع ہوگیا تھا
مجھے لگتا ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، کئی دنوں سےسردی کو سمجھا رہا ہوں کہ تم نے
اندھیری رات میں بجلی کی لپک لمحے بھر کو منظر روشن کرتی ہے مگر اسے دن کا اجالا تو نہیں
بدھ کی صبح سے رات گئے تک روایتی اور سوشل میڈیا کی تمام تر توجہ فواد چودھری کی گرفتاری پر
چند مہینوں سے کبھی کبھار محض شک ہورہا تھا۔اب مگر یقین آنا شروع ہوگیا ہے کہ میرا دماغ کھسک گیا